رنچن انگمو
لیہہ (لداخ): مرکز کے زیر انتطام علاقے لداخ کے مرکزی شہر لیہہ میں واقع چھس سوما مسجد 17ویں صدی کی ایک اہم تاریخی یادگار ہے۔ یہ اس دور کے فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے جب لیہہ قصبہ قدیم شاہراہ ابریشم یا سلک روٹ پر ایک اہم تجارتی مرکز اور پڑاؤ تھا۔ یہ مسجد اس وقت تعمیر کی گئی جب وسطی ایشیا، کشمیر، پنجاب اور دیگر علاقوں کے تاجر لیہہ میں پڑاؤ ڈالتے تھے ۔ان تاجروں میں کافی تعداد مسلمانوں کی ہوتی تھی جنہیں نماز ادا کرنے کے لیے ایک جگہ کی ضرورت تھی۔ اسی ضرورت کے پیش نظر چھس سوما مسجد کا قیام عمل میں آیا۔ یہ مسجد خواتین کی عبادت کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی اور اس مسجد میں طلبہ کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ایک مدرسہ بھی قائم تھا۔
لداخ کی قدیم ترین تساس سوما مسجد (ETV Bharat) آج کے دور میں بھی چھس سوما مسجد مقامی مسلم آبادی کے لیے مسجد اور دینی مرکز کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ یہ مسجد لداخ کی متنوع اور باہمی طور پر جڑی ہوئی تاریخ کی علامت ہے، جہاں تجارت، مذہب اور ثقافت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔
سال 2007 میں بحالی کا کام
2007 میں، تبتی ہیریٹیج فنڈ یا ٹی ایچ ایف اور انجمن معین الاسلام سوسائٹی نے لیہہ کی اس قدیم ترین مسجد کی بحالی کے لیے باہمی تعاون کیا۔ یہ مسجد چھس سوما باغ میں واقع ہے جو قدیم شہر کے چھوٹے رنتھک علاقے میں موجود ہے۔ انجمن معین الاسلام کے صدر ڈاکٹر عبدالقیوم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ لیہہ اس تجارتی نیٹ ورک کا مرکز تھا جہاں لداخ، پنجاب، کشمیر، اور ممکنہ طور پر چین کے تاجروں کی آمد ہوتی تھی۔ ایران اور یورپ سے بھی تاجر یہاں سے گزرتے تھے، جبکہ وسطی ایشیا کے تاجر، خاص طور پر نوبرا پنامک علاقے سے یہاں آتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر تاجر مسلمان تھے اور وہ چھس سوما میں جمع ہو کر نماز ادا کرتے تھے۔ انکے مطابق اس مسجد میں آج بھی اذان دی جاتی ہے اور پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے۔
تساس سوما مسجد کے قدیم استون آج بھی صحیح سالم ہیں (ای ٹی وی بھارت) وسطی ایشیائی تجارتی کاروانوں کا مرکز
انجمن معین الاسلام کے ایکزیکٹو ممبر ڈاکٹر نور محمد کا کہنا ہے یہ مسجد لیہہ کی سب سے قدیم عوامی مساجد میں سے ایک ہے۔ چھس سوما کا علاقہ وسطی ایشیا سے آنے والے تجارتی کاروانوں کا ایک اہم پڑاؤ تھا۔ دیگر کیمپنگ مقامات میں پولیس اسٹیشن اور چیف میڈیکل آفیسر کے دفتر کے نزدیک والا علاقہ، ٹیکسی اسٹینڈ زنگسی کے قریب کا علاقہ اور بلکھنگ شامل تھے، جہاں بلتستان سے آنے والے لوگ قیام کرتے تھے۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شاہراہ ابریشم پر تجارت سے کشمیر، لداخ اور تبت کے علاقے ایکدوسرے کے ساتھ اتنے مربوط ہوگئے تھے کہ انکے مزہب، رسوم و رواج اور زبان پر بھی گہرے اثرات پڑگئے تھے۔
تساس سوما مسجد ماضی میں سرائے کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی (ای ٹی وی بھارت) انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسجد 1950 کی دہائی تک فعال رہی، تاہم اس کی خستہ حالی کے بعد یہاں نماز ادا نہیں کی گئی۔ بعد میں ٹی ایچ ایف اور انجمن معین الاسلام نے اس مسجد کو بحال کیا۔ مسجد کی بحالی کے حوالہ سے انہوں نے کہا: ’’مسجد کا مرکزی دروازہ اور ستون اپنی اصل حالت میں ہی رکھے گئے ہیں اور یہ بہت ہی قدیم ہیں۔ یہ مسجد کبھی عوامی عبادت کا مرکز تھی اور اس میں آنے والے کاروانوں کے درمیان تجارت بھی ہوتی تھی۔
مسجد کا قیام اور اہمیت
ڈاکٹر نور محمد نے کہا کہ زیادہ تر تاجر جو وسطی ایشیا سے یہاں آتے تھے، مسلمان تھے، اور اُس وقت لیہہ میں ان کے لیے نماز کی ادائیگی کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی۔ ان مسلم تاجروں نے بادشاہ سنگھے نمگیال سے درخواست کی کہ انہیں مسجد کے لیے زمین فراہم کی جائے، جس کے بعد بادشاہ نے یہ علاقہ مختص کیا، جہاں ایک چھوٹی مسجد تعمیر کی گئی۔ چھس سوما کا علاقہ ان تاجروں کے لیے ایک اہم کیمپنگ گراؤنڈ تھا۔ اس مسجد کا ایک محراب آج بھی محفوظ ہے۔ نور محمد کے مطابق موجودہ دور میں یہاں نہ صرف پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے بلکہ بہت سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے بھی آتے ہیں کیونکہ یہ اب وسطی ایشیائی عجائب گھر کے کمپاؤنڈ کا حصہ ہے۔
بحالی کے دوران مسجد کے قدیم دروازے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی (ای ٹی وی بھارت) تاریخی حوالہ جات
مؤرخ غنی شیخ اپنی تحریر ’’اسلامی تعمیرات لداخ میں‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’1620 کے کچھ عرصے بعد لیہہ میں کاروبار کرنے والے مسلمان تاجروں کی درخواست پر سنگھے نمگیال نے انہیں مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا فراہم کیا۔ یہ مسجد لیہہ کی سب سے قدیم عوامی مسجد ہے۔ حالانکہ اب اسے ترک کر دیا گیا ہے اور اُس وقت بھی یہ صرف مختصر مدت کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔‘‘
غنی شیخ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ مسجد یک منزلہ عمارت ہے جس میں ایک بڑا کمرہ ہے اور سائیڈ میں ایک چھوٹا داخلی دروازہ ہے۔ مسجد میں لکڑی کے چھ ستون ہیں جن کے سرے لداخی طرز میں تراشے گئے ہیں لیکن ان پر کوئی رنگ نہیں ہے ۔ مسجد کا مینار نہیں ہے اور اس میں ایک لکڑی کا گنبد تھا جو اب شاہ ہمدان مسجد میں نصب ہے۔‘‘ واضح رہے کہ لیہہ کی مضافات میں شے کے مقام پر ایک قدیم ترین مسجد موجود ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اسے کشمیر میں اسلام کے بانی شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانی رحمت اللہ علیہ نے تعمیر کیا ہے۔ میر سید علی ہندانی اور انکے فرزند میر محمد ہمدانی نے لیہہ کے راستے سے ہی کشمیر میں داخل ہوکر اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام کیا تھا جس کی بنیاد پر کشمیر میں اسلام متعارف ہوا اور اسلامی تہزیب پھل پھول گئی۔
موجودہ دور میں سینکڑوں سیاح اس مسجد کی زیارت کے لیے آتے ہیں (ای ٹی وی بھارت) بحالی کی کوششیں
سوشل انتھرو پالوجسٹ اور لداخ آرٹس اینڈ میڈیا آرگنائزیشن کی بانی مونیشا احمد اپنی یادداشت میں مرحوم مورخ عبد الغنی شیخ کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’عبدالغنی شیخ نے تاریخی عمارات کی بحالی کے لیے کام کیا تاکہ لداخ کی ثقافتی وراثت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ انہیں 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی لیہہ کی پہلی عوامی مسجد تساس سوما کی بحالی کے آغاز کے لیے یاد رکھا جائے گا۔‘‘ عبدالغنی شہخ چند ماہ قبل سرینگر میں انتقال کرگئے اور انہیں لیہہ میں آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ چھس سوما مسجد اور لداخ کے دیگر تاریخی مقامات کے بارے میں انکی تحقیق کو حرف آخر تصور کیا جاتا ہے۔