راجوری:جموں و کشمیر کے راجوری ضلع کے بڈھال گاؤں میں گذشتہ دو مہینوں میں 17 اموات کے سنسنی خیز واقعات کا سبب زہریلے مادے ہو سکتے ہیں، کیونکہ تمام لیبارٹری کی رپورٹ اس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ یہ موتیں بیکٹیریل، وائرل، پروٹوزون یا زونوٹک بیماری کی وجہ سے نہیں ہوئیں۔
جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے کہا کہ سی ایس آئی آر (CSIR) کے تحت لکھنؤ میں ایک ٹاکسیکولوجی لیباریٹری کے ذریعہ کئے گئے ابتدائی جانچ میں کسی انفیکشن، وائرس یا بیکٹیریا کی عدم موجودگی کا اشارہ ملتا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ابتدائی نتائج ایک زہریلے مادے کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا فی الحال مزید تجزیہ جاری ہے۔
جتیندر سنگھ نے کہا کہ "ٹوکسن سے متعلق چرچا شروع ہو گئی ہے لیکن پہلا ٹیسٹ لکھنؤ میں ایک ٹاکسیکولوجی لیباریٹری نے کیا تھا۔ اس میں کوئی انفیکشن، کوئی وائرس، کوئی بیکٹیریا نہیں پایا گیا، صرف ایک ٹاکسن پایا گیا۔ اب ٹاکسن کا ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔ زہریلے مادوں کی ایک لمبی لسٹ ہے جن کا تجربہ کیا جا رہا ہے کہ آخر کس خاص زہریلے مادے کی وجہ سے یہ اموات ہوئیں اور اگر کوئی شرارت یا کوئی اور واردات ہوئی تو ہمیں اس کے بارے میں پتہ چل جائے گا،‘‘
تقریباً 3,800 رہائشیوں پر مشتمل گاؤں میں 7 دسمبر سے اب تک 13 بچوں اور ایک حاملہ خاتون سمیت کم از کم 17 افراد پراسرار حالات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان سب نے بخار، درد، متلی، شدید پسینہ آنا اور ہسپتالوں میں داخل ہونے کے دنوں میں مرنے سے پہلے ہوش کھونے کی شکایت کی۔
'واحد امکان ٹاکسن'
وہیں وبائی امراض کے سینئر ماہر ڈاکٹر اور راجوری کمیونٹی میڈیسن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ شجاع قادری نے بدھ کے روز کہا کہ اب تک کی تمام جانچیں یہ واضح کرتی ہیں کہ بڈھال گاؤں میں ہونے والی اموات کسی بیماری کا نتیجہ نہیں ہیں۔ لہٰذا، جانچ کو کھانے پینے کی اشیاء میں زہریلے مواد کی شناخت تک محدود کر دیا گیا ہے۔
قادری نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "وبائی اور متعدی امراض کی جانچ کی بنیاد پر ابھی تک ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کوئی بیکٹیریل، وائرل، پروٹوزون، یا زونوٹک بیماری نہیں ہے... اب صرف ٹاکسن کا باقی بچا امکان ہے۔"
یہ بھی پڑھیں:راجوری بڈھال اموات: 30 لوگ ڈاکٹروں کی نگرانی میں کورنٹین، چار افراد جی آئی چندی گڑھ میں زیر علاج
"ٹاکسن کی منتقلی کا بنیادی ذریعہ انجیکشن ہوتا ہے۔ ہماری حتمی تشخیص یہ ہے کہ یہ اموات زہریلے مواد کا نتیجہ ہیں۔ اب یہ بحث کا موضوع ہے کہ آیا یہ سب حادثاتی ہوا یا یہ کسی نے جان بوجھ انجام دیا۔ ضلع انتظامیہ اس کی جانچ کر رہی ہے۔
نیوروٹوکسن کو الگ کرنے کے لیے خوراک اور پانی کے 200 سے زائد نمونے ملک بھر کے مختلف لیباریٹریز کو اسکریننگ کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ زہریلے مواد کے پینل کی بنیاد پر لیبارٹریز ایک ہفتے یا 10 دن کے اندر زہر کو الگ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گی اور ہم مزید اموات کو روکنے کے لیے آسانی سے اقدامات کر سکتے ہیں۔
گھروں کو سیل کر دیا گیا