سرینگر(پرویز الدین): سر میں شدید درد ہے، رات نیند بھی نہیں آئی۔ یہ جملہ باآواز بلند بول کر دیکھیے، اردگرد موجود تین چار لوگ ضرور آپ کو مختلف ادویات تجویز کر دیں گے۔ گویا کہ خود علاجی میں ہمارے معاشرے کا ہر فرد ماہر ہے۔
ایک خود علاجی کے ماہر شخص نے اگر کوئی گولی آپ کو تجویز کی تو دوسرا فوراً تردید کرتے ہوئے کہے گا کہ ’’نہیں نہیں بلکہ تم یہ والی چھوڑو، میں دوسری دوا بتاتا ہوں۔ یہ دوا کھاؤ اس سے زیادہ جلدی درد ختم ہو گا۔
ہم سب ایسے بے شمار لوگوں سے واقف ہوں گے، جن کی صبح بھی ادویات سے ہوتی ہے اور دن کا اختتام پر بھی انہیں مٹھی بھر گولیاں پھانکنے کے بعد ہی سکون آتا ہے۔ دواؤں کے منفی اثرات سے بے خبر ہم سب کے گھروں میں نیلی، پیلی، پتلی، موٹی ہر سائز کی گولیاں دستیاب ہوتی ہیں۔ گویا کہ ایک منی میڈیکل اسٹور ہو۔
از خود دوائی کھانے کے بڑھتے رجحان (Video Source: ETV Bharat)
ایسے میں از خود دوائیاں کھانے اور ڈاکٹر کی جانب سے بے تحاشا ادویات لکھنے سے جموں وکشمیر ادویات کی ایک بڑی منڈی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ جہاں ایک اندازے کے مطابق سالانہ دو ہزار روپے کی دوائی کھاتا ہے۔ وہیں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق جموں وکشمیر میں تقریبا ً 3500 کروڑ روپے کی مالیت کے ادویات کی کھپت ہے۔ اس میں وہ ادویات بھی شامل ہیں جو کہ سکمز صورہ اور دیگر ایسوسیٹ اہسپتال اپنے طور بھی خریدتے ہیں۔
محکمہ صحت و طبی تعلیم کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ جموں وکشمیر میں سالانہ کروڑوں روپے کی ادویات کا کاروبار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جے اینڈ کے میڈیکل سپلائز کارپوریشن لمیٹیڈ (جے کے ایم ایس سی ایل) جو کہ جموں وکشمیر میں صحت و طبی تعلیم اور دیگر اہسپتالوں کے لیے ادویات اور دیگر طبی آلات خریدتی ہے۔ سالانہ کی بنیاد پر تقریباً 3500 کروڑ روپے کے ادویات خریدتی ہے اس میں وہ رقم بھی شامل ہیں جو کہ سکمز صورہ اور دیگر ایسوسیٹ اہسپتال اپنے فنڈز سے خریدتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جموں وکشمیر میں مختلف بیماریوں جیسے شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ از خود دوائیاں کھانے کے رجحان نے ادویات کے کاروبار میں اضافہ کیا ہے۔ جموں وکشمیر میں ادویات کے کاروبار پر نظر رکھنے والے محکمہ ڈرگ اینڈ فوڈ کنٹرول آرگنائزیشن کے ایک سینئر افسر کا ماننا ہے کہ شوگر، بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے ساتھ ساتھ یہاں عام لوگوں کو بھی از خود دوائی کھانے کا چلن بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں اندازے کے مطابق جموں وکشمیر میں ہر فرد سالانہاوسطا" 2000 روپے کی زائد کی دوائی کھاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ایسا کوئی گھر نہیں ہوگا جہاں پر مختلف قسم کی ادویات موجود نہ ہوں اور جو لوگ اپنے آپ کو صحت مند تصور کرتے ہیں وہ بھی از خود دوائی لینے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔
نجی سطح پر جب ہم ادویات کے اس کاروبار کو دیکھتے ہیں تو یہاں تصویر کا دوسرا رخ ہی نظر آرہا ہے اور چونکا دینے والے اعدادو شمار سامنے آتے ہیں۔ سرینگر کمسٹس ایسوسی ایشن کے چیرمین عبدالحد بٹ کہتے ہیں کہ کشمیر صوبے میں ہماری ایسوسی ایشن کے ساتھ جڑے ممران ماہانہ100 کروڑ روپے سے زیادہ کی تجارت کرتے ہیں جو کہ سالانہ 12سے 15 کروڑ بنتا ہے۔ لیکن کشمیر میں ادویات کا کاروبار 15 کروڑ روپے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ سرینگر میں ہی تقریباً 2800 دوا فروش اور ڈیسٹریبیوٹرس رجسٹر ہیں۔ جن میں سے ہماری ایسوسی ایشن کے ساتھ صرف 1300 دوا فروش اور ڈیسٹریبیوٹرس جڑے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی ڈاکٹروں نے اپنی کمپنیاں بھی کھولی ہیں جو کہ مریضوں کو اپنی ہی کمپنی کے ادویات لکھتے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ کشمیر میں ہر نجی اہسپتال اور ڈائیگوناسٹک سینٹر پر اپنی اپنی ادویات کی دوکانیں موجود ہیں۔ ایسے میں کشمیر میں یہ تجارت بے لگام ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا صحیح اندازہ لگانا ذرا مشکل ہے۔ تاہم محتاط اندازے کےمطابق نجی سطح پر ادویات کا یہ کاروبار ہزاروں کروڑ روپے کا ہوتا ہوگا۔