سرینگر:جموں کشمیر اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس (این سی) نے شاندار کامیابی حاصل کی اور یو ٹی اسمبلی میں اس جماعت کے کئی ارکان موروثی سیاستدان ہیں، جن کے آباء و اجداد شیخ محمد عبداللہ کے دور سے ہی پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
این سی کے نائب صدر عمر عبداللہ، جو یونین ٹیریٹری کے پہلے وزیر اعلیٰ بننے جا رہے ہیں، شیخ خاندان کی تیسری نسل کے سیاستدان ہیں۔ شیخ خاندان نے جموں و کشمیر کی انتخابی تاریخ میں زیادہ تر وقت حکومت کی ہے۔ 54 سالہ عمر عبداللہ، جو بڈگام اور گاندربل سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں، سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بیٹے ہیں۔ فاروق عبداللہ 1982 سے 1996 تک کئی مرتبہ سابق ریاست کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ عمر نے 1998 میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور کم عمر رکن پارلیمنٹ بنے۔ 2008 سے 2014 تک عمر عبداللہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔
اس بار عمر عبداللہ دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوں گے، لیکن وہ اس بار یو ٹی کی حکومت کریں گے جس کی محدود اختیارات ہوں گے اور لیفٹیننٹ گورنر کو جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2020 کے مطابق زیادہ اختیار حاصل ہے۔
43 سالہ سلمان ساگر، جو حضرت بل اسمبلی حلقہ سے رکن منتخب ہوئے ہیں، این سی کے جنرل سیکرٹری اور سات بار رکن اسمبلی رہ چکے علی محمد ساگر کے بیٹے ہیں۔ سینئر ساگر شیخ عبداللہ کے دور سے ہی نیشنل کانفرنس سے وابستہ ہیں اور سرینگر کی خانیار نشست سے چھ متواتر انتخابات جیت چکے ہیں۔ ان کے بیٹے سلمان ساگر این سی (کشمیر وادی) کے یوتھ صدر ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے اسمبلی انتخابات میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سابق وزیر آسیہ نقاش کو شکست دی۔
50 سالہ ہلال اکبر لون، جو بانڈی پورہ ضلع کے سونہ واری حلقے سے منتخب ہوئے ہیں، سابق رکن پارلیمنٹ اکبر لون کے بیٹے ہیں۔ سینئر لون این سی کے دیرینہ رہنما ہیں، جو 2002 سے 2018 تک سونہ واری کے ایم ایل اے رہے ہیں، 2019 میں رکن پارلیمنٹ بھی بنے اور جموں و کشمیر اسمبلی کے ایک متنازعہ اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔ ہلال نے اپنے بیمار والد کی جگہ پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا اور انجینئر رشید کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار یاسر ریشی کو شکست دی۔
بشیر احمد شاہ (ویری) نے اننت ناگ ضلع کے سری گفوارہ - بجبہاڑہ حلقے سے پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا کو شکست دی۔ وہ این سی کے سابق وزیر مرحوم عبد الغنی شاہ کے بیٹے ہیں۔ جونئر ویری نے اپنے والد کی نشست سے اپنا پہلا انتخابات جیتا، جسے ان کے والد نے 1983 کے انتخابات سے لگاتار جیتا تھا۔ پی ڈی پی نے 1996 میں اس نشست پر پہلا قدم جمایا جب محبوبہ مفتی نے اسے کانگریس کے امیدوار کے طور پر جیتا تھا۔
پچاس سالہ شیخ احسان احمد (پردیسی)، جو لال چوک اسمبلی حلقہ سے منتخب ہوئے ہیں، شیخ غلام قادر (پردیسی) کے بیٹے ہیں۔ غلام قادر نے 1987 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے وقت سرینگر کے ڈپٹی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کی اور ایم ایل سی بھی بنائے گئے۔ انہوں نے این سی میں دوبارہ شمولیت اختیار کی اور اپنے بیٹے احسان کو پارٹی میں شامل کیا، جنہوں نے لال چوک سے انتخابات جیتے، اس نشست کا نام حد بندی سے قبل سونہ وار تھا۔
این سی کے ترجمان اعلیٰ تنویر صدیق نے سرینگر کے زڈی بل حلقے سے انتخابات جیتے۔ 45 سالہ تنویر، صادق علی کے بیٹے ہیں، جو این سی کے خزانچی اور ایم ایل سی تھے۔ تنویر نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پی ڈی پی سے کیا اور سرینگر میونسپل کارپوریشن (ایس ایم سی) کے کونسلر منتخب ہوئے۔ بعد میں انہوں نے این سی میں شمولیت اختیار کی اور عمر عبداللہ کے قریبی بن گئے، جنہوں نے انہیں 2008-2014 کی این سی-کانگریس حکومت میں ایم ایل سی نامزد کرنے میں مدد دی، اس وقت عمر عبداللہ وزیر اعلیٰ تھے۔
55 سالہ ڈاکٹر سجاد شفیع (اوڑی) این سی کے تجربہ کار رہنما اور سابق وزیر محمد شفیع (اوڑی) کے بیٹے ہیں۔ شفیع اوڑی نے کئی بار لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اسمبلی حلقے کی نمائندگی کی ہے، اور ان کے میڈیکل ڈاکٹر بیٹے نے اپنا پہلا انتخابات جیت کر اس حساس نشست کی نمائندگی کی ہے۔
گوجر رہنما میاں الطاف نے گاندربل ضلع کے کنگن حلقے سے اپنے بیٹے میاں مہر علی کو نامزد کیا۔ کنگن، میاں خاندان کا مضبوط گڑھ ہے اور 38 سالہ مہر گوجر خاندان کی تیسری نسل کے سیاستدان ہیں۔ الطاف، جو فی الحال اننت ناگ-راجوری پارلیمانی نشست کے رکن پارلیمنٹ ہیں، مرحوم میاں بشیر کے بیٹے ہیں، جو جموں و کشمیر کے گوجر رہنماؤں میں ایک نمایاں نام تھا۔ وہ کانگریس کے رہنما تھے، لیکن الطاف نے اپنا سیاسی سفر این سی سے شروع کیا اور اب ان کے پوتے مہر، کنگن کی نمائندگی کریں گے۔
میاں الطاف کے این سی اور گوجر حلقے میں اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ این سی کے تین امیدوار ان کی مقبولیت کے سبب کامیاب ہوئے۔ پونچھ ضلع کے سرنکوٹ حلقے سے الطاف کے قریبی رشتہ دار چودھری اکرم نے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی حاصل کی۔ اکرم، جو مرحوم کانگریس رہنما چودھری اسلم کے بیٹے ہیں، کانگریس اور اپنی پارٹی میں رہ چکے ہیں، لیکن الطاف نے انہیں پارلیمانی انتخابات سے قبل این سی میں شامل کر لیا۔ اکرم نے آزاد امیدوار کے طور پر جیت حاصل کی، لیکن انہوں نے این سی کو حکومت کی تشکیل میں حمایت دی۔
این سی کے امیدوار جاوید چودھری نے راجوری ضلع کے بدھل حلقے سے اپنے ماموں زاد ذوالفقار چودھری کو شکست دی، جو اسمبلی انتخابات سے چند روز قبل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شامل ہو گئے تھے۔ راجوری کے چودھری خاندان کا الطاف خاندان سے قریبی تعلق ہے۔ جنوبی کشمیر کے کوکرناگ حلقے، جو قبائلیوں کے لئے مختص ہے، میں پہلی بار حصہ لینے والے ظفر علی کھٹانہ نے پی ڈی پی کے امیدوار چودھری ہارون کھٹانہ کو شکست دی۔ ظفر علی کا تعلق بھی میاں الطاف کے خاندان سے ہے، جنہوں نے انہیں انتخاب لڑنے کی سفارش کی تھی۔
این سی کی سینئر خاتون رہنما سکینہ مسعود ایتو اپنے حریفوں کے لیے ہمیشہ سخت ثابت ہوئی ہیں۔ 52 سالہ سکینہ این سی کے سابق وزیر ولی محمد ایتو کی دختر ہیں، جنہیں 1994 میں ان کے آبائی گاؤں میں مسجد سے باہر نکلتے وقت عسکریت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔ سکینہ نے اپنے والد کی موت کے بعد دمحال ہانجی پورہ میں این سی کی باگ ڈور سنبھالی اور تین مرتبہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ وہ 2008-2014 میں این سی اور کانگریس حکومت میں سوشل ویلفیئر کی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ اوہ 2014 میں اسمبلی انتخابات ڈی پی کے عبد المجید پڈر سے ہار گئی تھیں۔
51 سالہ این سی رہنما ارشاد رسول کار، مرحوم کانگریس رہنما غلام رسول کار کے بیٹے ہیں، جو جموں و کشمیر کانگریس یونٹ کے صدر رہ چکے ہیں۔ جونیئر کار نے 2021 سے قبل این سی میں شمولیت اختیار کی اور انہیں سوپور حلقے سے نامزد کیا گیا جہاں انہوں نے کانگریس امیدوار عبد الرشید ڈار کو شکست دی۔ ڈار نے 2008 اور 2014 میں سوپور کی نمائندگی کی ہے، لیکن اس بار وہ کار سے شکست کھا گئے، جنہیں این سی اور کانگریس کے کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔ ان کی ہمشیرہ مسرت کار بھی این سی کی خواتین ونگ کی سابق چیئرپرسن رہی ہیں۔
نیشنل کانفرنس کی مخالف جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے نو منتخب رکن اسمبلی رفیق احمد نائیک، جو پلوامہ ضلع کے ترال اسمبلی حلقے سے منتخب ہوئے ہیں، کا سیاسی تعلق نیشنل کانفرنس سے رہا ہے۔ ان کے والد، مرحوم علی محمد نائیک، نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما، رکن پارلیمنٹ اور جموں و کشمیر اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ رفیق، جو جموں و کشمیر حکومت کے محکمہ قانون میں ملازم رہے ہیں، اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں داخل ہوئے۔ ان کی قسمت پی ڈی پی میں شمولیت کے بعد چمکی اور 61 سالہ نائیک نے اپنے پہلے انتخابات میں کانگریس-این سی اتحاد کے امیدوار سرندر سنگھ چنی کو شکست دی۔ تاہم، وہ پی ڈی پی کے دیگر دو ارکان اسمبلی کے ساتھ حزب اختلاف میں بیٹھیں گے۔
منفرد سیاستدان انجینئر رشید نے لنگیٹ اسمبلی حلقے میں اپنی جگہ اپنے چھوٹے بھائی خورشید احمد شیخ کو نامزد کیا تاکہ اپنے مضبوط گڑھ کو برقرار رکھ سکیں۔ انجینئر رشید مبینہ طور ٹیرر فنڈنگ کے مقدمے میں ضمانت پر رہا ہیں۔ رشید نے بارہمولہ پارلیمانی نشست سے پارلیمانی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کو شکست دی۔ چونکہ رشید کو 2008 اور 2014 میں جموں و کشمیر اسمبلی کے لیے منتخب کیا گیا تھا، وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی باہر والا لنگیٹ سے اسمبلی انتخابات میں حصہ لے۔ اس لیے انہوں نے اپنے بھائی خورشید کو نامزد کیا، جنہوں نے اسمبلی انتخابات سے قبل سرکاری ٹیچر کی نوکری سے استعفیٰ دیا اور اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں:پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا عروج و زوال، 28 سیٹوں سے 3 تک محدود