سرینگر (جموں کشمیر):ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ کے جسٹس سنجے دھر جس وقت ’’عصمت دری‘‘ کیس میں ایک اہم فیصلہ سنانے جا رہے تھے، کورٹ روم میں موجود افراد کی توقعات و خواہشات کے عجیب احساس سے پر تھا۔ یہ معاملہ جموں کشمیر کے کٹھوعہ ضلع کے رہنے والے نریش کمار نامی ایک شہری کا تھا، جس کو آج سے چھ برس قبل عصمت دری کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی اور آج عدالت اس کیس کی نظرثانی کی درخواست پر اپنا فیصلہ سنانے جا رہی تھی۔ جسٹس دھر نے کمار کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے متاثرہ کی گواہی میں اہم تضادات اور نا ممکنات کو اجاگر کیا، جس سے اس کی اعتباریت کو نقصان پہنچا۔ ادھر، کٹھوعہ ڈسٹرکٹ جیل میں بند کمار نے راحت کی سانس لی۔
کیا تھا معاملہ
مقدمہ فروری 2018 میں شروع ہوا جب پراسیکیوٹرکس (متاثرہ) کے والد نے اپنی بیٹی کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی۔ لڑکی، جس کی عمر اس وقت تقریباً 15-16 سال تھی، کا پتہ لگایا گیا اور اس کا طبی معائنہ بھی کیا گیا۔ اس دوران یہ الزامات سامنے آئے تھے کہ کمار ’’مغویہ‘‘ کو راجستھان لے گیا اور اس کے ساتھ کئی بار زبردستی جنسی تعلقات قائم کیے گئے۔ اس درمیان لڑکی کا بھائی وہاں پہنچا اور اس کو بازیاب کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد کمار کو گرفتار کیا گیا اور پھر پرنسپل سیشن جج، کٹھوعہ نے رنبیر پینل کوڈ (آر پی سی) کی دفعہ 363 (اغوا)، 376 (عصمتداری) اور 343 (غلط طریقے سے قید) کے تحت عائد الزامات میں کمار کو مجرم قرار دیا۔
کورٹ نے اسے 18 سال قید اور مجموعی طور پر 16000 روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ تاہم، پراسیکیوٹرکس کے بیانات میں اہم تضادات جلد ہی سامنے آ گئے۔ اور معاملہ ہائی کورٹ پہنچا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران، سیکشن 164 - اے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت استغاثہ کی گواہی سے معلوم ہوا کیا کہ اس نے کمار کے ساتھ رضاکارانہ طور پر سفر کیا تھا، جو بعد میں اغوا اور منشیات کے اس کے دعووں سے متصادم تھا۔ کمار کی نمائندگی کرنے والے وکیل جگ پال سنگھ اور سورو مہاجن نے دلیل دی کہ ان تضادات نے ان کے بیان کو ناقابل اعتبار بنا دیا ہے۔