اردو

urdu

ETV Bharat / jammu-and-kashmir

جماعت اسلامی کشمیر: اصلاحی خدمات اور سیاسی تنازعات و پابندی تک - جماعت پابندی

جماعت اسلامی کشمیر پر مرکزی حکومت نے سال 2019 میں پانچ سال تک پابندی عائد کی تھی۔ اس پابندی پر مرکزی سرکار نے مزید توسیع کی۔ معروف علیٰحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی نے بھی جماعت اسلامی کی ٹکٹ پر سیاسی سفر کا آغاز کیا اور دو مرتبہ ریاستی اسمبلی کے رکن بنے۔

جماعت اسلامی کشمیر، اصلاحی خدمات اور سیاسی تنازعات و پابندی تک
جماعت اسلامی کشمیر، اصلاحی خدمات اور سیاسی تنازعات و پابندی تک

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 29, 2024, 2:02 PM IST

Updated : Feb 29, 2024, 4:52 PM IST

سرینگر (جموں و کشمیر):مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے جماعت اسلامی (جے ای آئی) جموں و کشمیر پر پابندی کی حالیہ توسیع نے سماجی، اسلامی و سیاسی جماعت کو دوبارہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) 1967 کے تحت ایک ’’غیر قانونی انجمن‘‘ کے طور پر نامزد اس تنظیم کو قومی سلامتی اور علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھی جانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا ہے۔

مرکز کی جانب سے جماعت اسلامی پر پابندی کا فیصلہ 47 رجسٹرڈ مقدمات کی فہرست پر مبنی ہے، جس میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کا مقدمہ بھی شامل ہے جس میں تنظیم کی جانب سے پرتشدد اور علیحدگی پسند سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے فنڈز کی مبینہ وصولی کو دعویٰ کیا گیا ہے۔ این آئی اے کی چارج شیٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ رقوم حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ جیسی عسکریت پسند تنظیموں کے افراد نے استعمال کیں، جس سے عوامی میں بے چینی اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

مرکز کا دعویٰ ہے کہ جماعت اسلامی، عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ قریبی روابط رکھتی ہے، نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ بھارت کے دیگر حصوں میں بھی انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کی حمایت کرتی ہے۔ مرکز کی جانب سے جماعت اسلامی پر اس کارروائی سے فروری 2019 میں عائد کی گئی پابندی میں مزید توسیع کی گئی ہے۔ اُس وقت یو اے پی اے کے تحت اس تنظیم کو پانچ سال کی مدت کے لیے ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت کے نوٹیفکیشن میں باور کیا گیا تھا کہ جماعت اسلامی عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے جس میں بھارتی سرزمین کے اندر اسلامک اسٹیٹ قائم کرنے کی کوششوں سمیت ’’تخریبی سرگرمیوں میں اضافے‘‘ کے خدشات ہیں۔

ابتدائی پابندی سے قبل تنظیم کے خلاف حکام نے ایک وسیع کریک ڈاؤن کیا تھا جس میں جماعت کے رہنماؤں سمیت 300 اراکین کو حراستی قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا اور مبینہ غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے چھاپے مارے گئے۔ کریک ڈاؤن کے حوالہ سے جماعت کے رہنماؤں نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ کہ ان کا ’’کام کسی سے پوشیدہ نہیں‘‘ ہے۔‘‘

وزارت داخلہ کے مطابق محکمہ داخلہ کی طرف سے تشکیل کردہ ٹریبونل نے متعدد دستاویز اور گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے پابندی کو برقرار رکھا۔ جج نے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ تنظیم غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے جس سے بھارت کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو خطرہ ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ذریعے جمع کرائے گئے ایک حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ جماعت اسلامی جموں کشمیر نے جماعت اسلامی پاکستان کی ہدایات پر عمل کرنا شروع کیا؛ حزب المجاہدین کی سرپرستی کی اور اس کا اندرونی طور پر یونائیٹڈ جہاد کونسل (یو جے سی) سے بھی تعلق تھا۔ یو جے سی مطفر آباد میں قائم مختلف عسکریت پسند گروپس کی ایک مشترکہ تنظیم ہے۔

کشمیر کے مین اسٹریم سیاسی رہنماؤں نے پابندی میں توسیع کے مرکزی حکومت کے فیصلے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا خاموش ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے رہنما بھی لب کشائی سے گریزاں ہیں۔ جماعت کے کسی بھی کارکن یا رہنما نے عوامی بیان دینے سے گریز کیا ہے۔

جماعت اسلامی کو 1990 میں اپنی پہلی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب اس تنظیم نے مختلف کشمیری گروپوں کے ساتھ مل کر پرامن جد و جہد کی وکالت سے ہٹ کر حکومت ہند کے خلاف مسلح بغاوت کی حمایت کی۔ کچھ مبصرین کا ماننا ہے کہ جماعت اسلامی کے موقف میں یہ تبدیلی مبینہ طور پر مسلح مزاحمت میں شرکت سے جے کے ایل ایف کی بڑھتی مقبولیت کے خوف سے ہوئی تھی۔

جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا قیام 1951 مین عمل میں لایا گیا تھا ۔ کشمیر کے پہلے امیر سعدالدین تارہ بلی بنے، جو سرینگر کے معروف صوفی اور ولی کامل احمد صاحب تاربلی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جنوبی کشمیر کے سیاسی طور حساس علاقے شوپیاں میں بحیثیت استاد کام کرتے ہوئے سعد الدین نے متعدد نوجوان اسکالروں کو متاثر کیا، جن میں مولانا غلام احمد احرار بھی شامل تھے جو اپنے قیام پنجاب کے دوران مجلس احرار کے ساتھ وابستہ رہے تھے۔ ایک اور قابل ذکر شخصیت پلوامہ کے حکیم غلام نبی تھے جو جماعت اسلامی کے ابتدائی اراکین میں سے تھے۔

سنہ 1971 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے اسمبلی میں اپنی جگہ بنانے کے لیے الیکشن میں طبع آزمائی کی۔ تاہم انہیں انتخابات میں مایوسی ہوئی کیونکہ تنظیم انتخابات میں دھاندلی کے بڑے پیمانے پر الزامات کے بیچ کوئی بھی سیٹ جیتنے میں ناکام رہی۔ اس دھچکے کے بعد جماعت اسلامی کی مرکزی مشاورتی کمیٹی نے ریاستی اسمبلی کے لیے 1972 کے انتخابات لڑنے کا اسٹریٹجک فیصلہ کیا۔ اس انتخابی شرکت کے پیچھے بنیادی مقصد اس مروجہ تصور کو چیلنج کرنا تھا کہ ’’سیاست اور مذہب کو الگ الگ رکھا جانا چاہیے۔‘‘ ریاستی اسمبلی کی تمام نشستوں پر مقابلہ کرنے کے ابتدائی ارادے کے باوجود مالی مجبوریوں نے جماعت اسلامی کو صرف 22 حلقوں میں انتخاب لڑنے تک محدود رکھا۔ تاہم انہیں اس بار بھی متوقع کامیابی حاصل نہیں ہوئی، اور پھر ایک بار دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے جماعت اسلامی محض پانچ نشستیں حاصل کر پائی۔

انتخابی مشکلات کے باوجود جماعت اسلامی نے اپنی شرکت کو بدستور جاری رکھا اور یہ استدلال پیش کیا کہ اس سے جماعت کی دعوت عام لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ جماعت اسلامی کے کامیاب امیدواروں نے ریاستی اسمبلی میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ مجوزہ غیر اسلامی قوانین کی مخالفت کی، اسلامی متبادلات کی وکالت کی اور جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے اہم مسئلے کو بھی اجاگر کیا۔ ان کا موقف تھا کہ ’’بھارت کشمیر میں استصواب رائے عامہ کرانے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘‘

سنہ 1975 میں جماعت اسلامی نے اندرا - شیخ عبداللہ معاہدے (Indira Abdullah Accord) کی سختی سے مخالفت کی اور اسے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ تاہم 1977 کے انتخابات میں ان کی انتخابی کارکردگی نے محدود کامیابی حاصل کی اور صرف ایک ہی نشست حاصل کی۔ چیلنجوں کے باوجود جماعت اسلامی نے جمہوری عمل میں حصہ لینے کے لیے اپنی وابستگی جاری رکھی جس کا مقصد سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونا اور جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت سمیت خطے کے لیے اہم مسائل پر اپنے موقف کو اجاگر کرنا تھا۔

مزید پڑھیں:جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر مزید پانچ سال کی پابندی

1980 کی دہائی میں جماعت کو مزید چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 1979 میں بڑے پیمانے پر جماعت مخالف مظاہرے اور جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے میں اس کے ملوث ہونے کے الزامات شامل تھے۔ ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھائے جانے کے ردعمل مین کشمیر میں جو بڑے پیمانے پر مطاہرے اور تشدد ہوا اسکا نشانہ جماعت اسلامی کے کارکن بنے۔ جماعت کا الزام تھا کہ اسوقت کی حکمران جماعت نیشنل کانفرنس نے ان مطاہپرون کی پشت پناہی کی۔ تنظیم نے 1983 میں ریاستی اسمبلی کا انتخاب لڑا لیکن مبینہ دھاندلی کی وجہ سے اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آخری بار اس تنظیم نے 1987 میں مسلم یونائیٹڈ فرنٹ (MUF) کی ایک اہم ترین اکائی کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے حق میں عوامی لہر دیکھنے کو ملی اور باور کیا جاتا تھا اسے اسمبلی میں بڑی تعداد میں نشستیں حاصل ہونگی تاہم الیکشن نتائج میں مبینہ طور بھاری دھاندلیاں کی گئیں اور فاروق عبداللہ کی قیادت مین نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی اتھادی حکومت قائم کی گئی تھی۔ ان انتخابات میں محمد یوسف شاہ امیرا کدل حلقے سے ایم یو ایف کے امیدوار تھے جنکے کئے محمد یاسین ملک اور جاوید میر نے انتخابی مہم چلائی۔ محمد یوسف شاہ ہی بعد حزب المجاہدین کے سربراہ بنے اور صلاح الدین کا نام اختیار کرکے پاکستانی زیر قبضہ کشمیر سے ہند مکالف عسکریت پسندی کی قیادت کرنے لگےے۔ یاسین ملک، لبریشن فرنٹ کے رہنما ہیں جنہیں عسکریت پسندی کے کیسز میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ اسوقت دلی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں۔ کئی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 1987 کے اسمبلی انتکابات میں بھاری پیمانے پر ہوئی دھاندلیوں کے ردعمل میں ہی کشمیر میں عسکریت پسندی کا آگاز ہوا جسے پاکستان کی بھرپور پشت پناہی حاصل رہی۔

جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کشمیر مین اسکا نیٹ ورک کافی مضبوط ہے۔ سابق گورنر ستیہ پال ملک نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی جس میں جماعت اسلامی کے خلاف بھرپور کارروائی کی وکالت کی گئی تھی۔

Last Updated : Feb 29, 2024, 4:52 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details