سرینگر:سرینگر پارلیمانی حلقہ سے نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے ایسے دو امیدوار ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں جن کا بیانیہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد قریباً یکساں ہے۔ 47 برس کے آغا سعید روح اللہ مہدی نیشنل کانفرنس کی جانب سے تین مرتبہ بڈگام سے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں اور ایک مرتبہ کابینی وزیر بھی تھے۔ انہوں نے سنہ 2002 سے تینوں اسمبلی انتخابات جیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
جموں و کشمیر کے تمام سیاسی قیدیوں کو بڑے پیمانے پر معافی دی جانی چاہئے: وحید الرحمان پرہ - Lok Sabha Election 2024
میں آج بھی سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد کا حامی ہوں: آغا روح اللہ - NC Candidate List
آغا روح اللہ معروف شیعہ لیڈر مرحوم آغا سعید مہدی کے فرزند ہیں، جن کو بڈگام کے کنیہامہ علاقہ میں بھم دھماکے میں 3 نومبر سنہ 2000 میں ہلاک کیا گیا تھا۔ آغا سعید مہدی کانگریس لیڈر تھے اور سنہ 1998 میں انہوں نے عمر عبداللہ کے خلاف سری نگر حلقہ سے پارلیمانی انتخابات لڑے تھے جن میں وہ ناکام ہوئے تھے۔ آغا روح اللہ کشمیر میں معروف شیعہ لیڈران میں شمار لیے جاتے ہیں اور آغا خاندان کا شیعہ آبادی پر بڑا دسترس ہے۔ آغا روح اللہ نے سنہ 2000 میں 21 برس کی عمر میں نیشنل کانفرنس میں شمولیت کی تھی۔
آغاز روح اللہ کا نکاح ان کے چاچا آغا سعید حسین کی بیٹی سے ہوا تھا لیکن یہ رشتہ برقرار نہیں رہا۔ جس کی وجہ سے اس خاندان میں دوریاں بڑھ گئیں۔ آغا سعید حسن انجمن شرعی شیعیان کے صدر ہیں اور وہ حریت کانفرنس کے بھی رکن تھے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد آغا روح اللہ بی جے پی سرکار کی سخت تنقید کرتے رہے اور اپنے بیانات میں دفعہ 370 کی منسوخی سے کشمیر پر ایک یلغار سے تعبیر کرتے رہے۔ وہ نیشنل کانفرنس کے ترجمان اعلیٰ تھے لیکن دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد انہوں سے عہدے سے استعفیٰ دیا اور نیشنل کانفرنس کی قیادت کی بھی کافی تنقید کی۔
ان کے قریبی ساتھیوں کا ماننا ہے کہ وہ نیشنل کانفرنس سے اس قدر ناراض ہوئے تھے کہ انہوں نے پارٹی اور سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ نے ان کو واپس پارٹی کی جانب مائل کیا اور پارلیمانی انتخابات لڑنے کی تلقین کی۔ آغا روح اللہ کو نیشنل کانفرنس نے سرینگر پارلیمانی حلقہ سے امیدوار نامزد کیا ہے۔ ان کو پارٹی لیڈران بارہمولہ نشست سے الیکشن لڑانا چاہتے تھے لیکن نیشنل کانفرنس کے ذرائع نے بتایا کہ ضلع کپواڑہ کے لیڈران نے ان کی مخالفت کی۔ بارہمولہ حلقہ میں آغا خاندان کو شیعہ آبادی میں کافی حمایت حاصل ہے۔
آغا روح اللہ نے گزشتہ روز سے انتخابی مہم کا آغاز کیا جس میں انہوں نے اپنا بیانیہ دہرایا جو نیشنل کانفرنس کی قیادت عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ سے بالکل مختلف ہے۔ آغا روح اللہ نے کہا کہ یہ انتخاب تعمیر و ترقی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس نمائندے کا انتخاب کرنا ہے جو جموں وکشمیر کے عوام کی صدا دہلی میں اٹھا سکتا ہے۔ گوکہ آغا روح اللہ کا مقابلہ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے نوجوان لیڈر وحید و رحمان پرہ سے ہے، جن کی نہ کوئی خاندانی سیاست سے وابستگی رہی ہے نہ ہی مذہبی سیاست سے۔ 34 برس کے وحید پرہ پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی میں سنہ 2013 میں شامل ہوئے تھے اور ایک دہائی میں انہوں نے جموں وکشمیر کے نوجوانوں اور سیاسی حلقوں میں اپنی پہچان بنالی۔
ضلع پلوامہ کے نائرہ گاؤں کے رہنے والے وحید پرہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے کافی قریبی مانے جاتے ہیں۔ اگرچہ وحید پرہ پی ڈی پی اور بی جے پی حکومت میں اثر ورسوخ لیڈران میں شمار ہوتے تھے، تاہم دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد ان کو دو برس تک قید میں رکھا گیا۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجینسی نے وحید پرہ کو عسکریت پسندوں کی معاونت کرنے کے الزام میں جیل میں ڈال دیا اور آج وہ ضمانت پر رہا ہیں۔ سنہ 2016 کے اوخر میں پی ڈی پی بی جے پی مخلوط سرکار کے دوران جب کشمیر وادی میں عسکریت پسند برہان وانی کی ہلاکت پر عوامی ایجی ٹیشن ہوئے تھے وحید پرہ نے سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں آٹھ ہزار نواجون جمع کیے جن کو اس وقت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے خطاب کیا تھا۔
وحید پرہ نے سنہ 2020 میں ہوئے ضلع ترقیاتی کونسل انتخابات جیل سے ہی لڑے تھے۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے بعد ہی ان کو این آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔ آج تک ان کو ڈی ڈی سی کا حلف بھی نہیں دیا گیا ہے۔ وحید پرہ نے پلوامہ ضلع سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔ انکا بیانیہ بھی آغاز روح اللہ کے بیانیہ سے میل رکھتا ہے۔ آغا روح اللہ کی طرح بھی وحید پرہ کشمیر کی شناخت، تشخص، خوف و ہراس کے متعلق عوام کو مطلع کررہا ہے تاکہ وہ انکی طرف مائل ہو اور انکو کامیاب بنائے۔
سرینگر پارلیمانی حلقہ میں سرینگر کی آٹھ، ضلع پلوامہ کی چار، ضلع شوپیان کی ایک، بڈگام کی تین اور ضلع گاندربل کی دو اسمبلی سیٹوں پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اس حلقہ میں ضلع پلوامہ اور سوپیان میں پی ڈی پی کو لوگوں کی حمایت حاصل ہونے کا دعوے کیا جارہا ہے تاہم سرینگر، بڈگام اور گاندربل کی سیٹوں پر ووٹرس کس طرح برتاؤ کریں گے یہ انتخابات کے دوران ہی معلوم ہوسکتا ہے۔ چوتھے مرحلے میں سرینگر میں 13 مئی کو رائے دہندگان کس امیدوار کو کامیاب بنائیں گے۔ کیا وحید پرہ کا جیل جانا ووٹرس کو انکی طرف مائل کرے گا یا آغا روح اللہ کا بیانیہ حاوی ہوگا یہ نتائج سے ہی معلوم ہوگا۔