سرینگر (جموں و کشمیر):وادی کشمیر کے مشہور اور دوسرے قدیم ترین کالج امر سنگھ کالج کیمپس کے بلند و قامت سفیدے کے درختوں کی کٹائی سے کالج کے موجودہ و سابق طلبا اور ماہرین ماحولیات نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ سال 1913 میں قائم کیے گئے امر سنگھ کالج کیمپس سے سفیدے کے 200 سے زیادہ درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ کالج کی 114سالہ پرانی اینگلو انڈین فن تعمیر کی ہیریٹیج عمارت تک کالج راستے کے دونوں طرف لگے یہ سفیدے کے درخت ایک سر سبز ٹنل کا نظارہ پیش کرتے تھے۔
ان درختوں کی کٹائی سے موجودہ طلباء سمیت کالج کے سابق طلباء اور ماہرین ماحولیات نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ یہاں آنے والے افراد اس سرسبز ٹنل سے گزرتے ہی سکون محسوس کرتے تاہم اب اس سبز ٹنل کو کنکریٹ کے فاؤنٹین ایریا میں تبدیل کیے جانے کا منصوبہ ہے جس طلبہ کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
ایک سابق طالب علم، جنید ڈار نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل ’’درختوں کا قتل‘‘ قرار دیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے اپیل کی: ’’ہمارے خوبصورت مناظر کی تباہی ناقابل معافی ہے، ان سبز خزانوں کو چھوڑ دو۔ ہمدردی کا مظاہرہ کرو، ان سبز سرنگوں اور فطرت کے ان لمحات کو محفوظ رکھو جو ہمارے ماضی کا ایک خوبصورت حصے رہ چکے ہیں۔‘‘
وکیل دیبا اشرف نے اس جذبات کی بازگشت کرتے ہوئے درختوں کی اہمیت کو امر سنگھ کالج کی شناخت کے ایک لازمی حصہ کے طور پر اجاگر کرتے ہوئے کہا: ’’یہ درخت امر سنگھ کالج کی پہچان تھے۔ ہر ایک فرد بشر یہاں آکر سکون محسوس کرتا اور فلم ساز ان فلک بوس دختوں سے ہی شروع کرتے تھے۔‘‘ حکیم سمیر ہمدانی، آئی این ٹی اے سی ایچ کشمیر کے ڈیزائن ڈائریکٹر نے سفیدے کے درختوں کو کونیفر سے بدلنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ اور انہوں نے اس فیصلے کی سختی تنقید کی۔