اننت ناگ (جموں کشمیر):دفعہ 370 کو منسوخ کیے جانے کے بعد جموں کشمیر میں مرکزی قوانین لاگو ہونے سے زمینی صورتحال میں بتدریج تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ اس کا خاص اور دلچسپ پہلو یہ بھی رہا کہ مرکز کے زیر انتظام ہونے کے بعد جموں کشمیر یو ٹی میں تاریخی سیاسی اُلٹ پھیر ہوئی اور دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد کی صورتحال سے جموں کشمیر کا سارا سیاسی منظر نامہ ہی تبدیل ہوگیا۔
سنہ 1989 میں مسلح شورش شروع ہونے سے 5 اگست 2019 تک جموں کشمیر خاص کر وای کے جو زمینی حالات رہے اُس طویل وقت کے دوران سیاسی اُتار چڑھاؤ برقرار رہا۔ اُس وقت کے حالات نے جس پارٹی کو عروج پر پہنچایا تھا،5 اگست 2019 کے بعد اس کا زوال شروع ہونے لگا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی داغ بیل ایک ایسے وقت میں ڈالی گئی تھی جب وادی کشمیر میں حالات ناسازگار تھے، پی ڈی پی کے بانی مرحوم مفتی محمد سعید کی ’’ہیلنگ ٹچ‘‘ (Healing Touch) پالیسی کا نعرہ نامساعد حالات کے شکار کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم کرنا، سرحدیں کھولنا، آر پار تجارت، پاکستان کے ساتھ بلا مشروط بات چیت جیسے نعروں سے ثمر آور نتائج سامنے آنے کے بعد پی ڈی پی، جموں کشمیر میں دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے لگی تھی۔ اُس وقت جہاں جنوبی کشمیر کو سیکورٹی کے اعتبار سے سب سے حساس تصور کیا جاتا تھا وہیں سیاسی میدان میں پی ڈی کو جنوبی کشمیر پر کافی سبقت حاصل تھی۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2002 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی نے جنوبی کشمیر کی 16 سیٹوں میں سے 10 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ سنہ 2004 میں محبوبہ مفتی نے جنوبی کشمیر کے حلقہ انتخاب اننت ناگ سے پارلیمانی انتخاب میں شرکت کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی نے 28 سیٹوں پر فتح حاصل کی تھی اور اس دوران بھی سب سے زیادہ سیٹیں جنوبی کشمیر میں ہی حاصل ہوئی تھیں اور اس طرح سے جنوبی کشمیر پر پی ڈی پی کی گرفت کافی مضبوط ہو گئی۔
اگرچہ دفعہ 370کی تنسیخ کے بعد جموں کشمیر میں جمہوری نظام طویل وقت تک مفلوج ہو گیا، اور سیاسی جماعتوں کے خیموں میں خاموشی کا عالم تھا، وہیں جموں کشمیر کی سیاست میں اس وقت ایک نئی ہلچل مچ گئی جب الطاف بخاری کی اپنی پارٹی اور غلام نبی بٹ (المعروف آزاد) کی ڈی پی اے پی معرض وجود میں آئیں۔ ان جماعتوں کے علاوہ اور بھی مزید سیاسی پارٹیاں وجود میں آنے اور حد بندی کے بعد سیاسی تذبذب رہا، تاہم سیاسی لڑائی میں این سی اور پی ڈی پی کو سب سے بڑی جماعتیں ہونے کا تصور عوام میں برقرار تھا، اور یہ توقع کی جا رہی تھی کہ لوک سبھا انتخابات میں پی ڈی پی اور این سی کے مابین زبردست مقابلہ ہوگا، لیکن
ان انتخابات میں پی ڈی پی کی کارکردگی خراب رہی، کیونکہ پورے جموں کشمیر پر ایک وقت اپنا دبدبہ قائم رکھنے والی پی ڈی پی ایک بھی سیٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ خاص بات یہ کہ محبوبہ مفتی کو اُس علاقہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا جہاں پر ان کا دبدبہ رہتا تھا، جس سے پی ڈی پی کی کمزور ساخت منظر عام پر آگئی۔