سرینگر: جموں و کشمیر کی پانچ پارلیمانی سیٹوں پر انتخابات پر امن طریقے سے اختتام ہوئے اور ان انتخابات میں پولنگ کی شرح گزشتہ تین دہائیوں سے بہت زیادہ رہی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں کشمیر کے ووٹرس کو اس ووٹنگ شرح پر مبارکباد بھی دی۔
جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے پولنگ کی شرح میں اس قدر اضافے کو اپنے کھاتے میں ڈال کر کہا یہ دفعہ 370 کی منسوخی پر عوام مہر ثبت ہوئی، لیکن مقامی سیاسی جماعتیں بالخصوص نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگرس کا ماننا ہے کہ لوگوں نے حکمران جماعت کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے خلاف ووٹ سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
جموں ادھمپور اور راجوری پونچھ کے علاقوں میں ووٹنگ کی شرح کشمیر کے مقابلے میں زیادہ ہی رہتی تھی کیونکہ ان علاقوں کے لوگ بائکاٹ یا عسکریت پسندی کے خوف کے سائے تلے نہیں رہتے تھے۔ لیکن وادی کشمیر میں جہاں لوگ 1987 کے اسمبلی انتخابات کے بعد ووٹنگ سے منحرف ہی رہے، وہیں علیحدگی پسندوں کی جانب سے الیکشن بائکاٹ اور عسکریت پسندوں کے خوف سے بھی لوگ پولنگ مراکز سے دوری اختیار کرتے تھے۔
لیکن رواں پارلیمانی انتخابات میں چیف الیکٹورل افسر کے مطابق ماضی کے انتخابی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ سرینگر، بارہمولہ اور اننتناگ حلقوں میں ووٹنگ کی شرح حوصلہ کن رہی۔ سوپور، ترال، پلوامہ اور شہر خاص جیسے بائکاٹ والے علاقوں میں ووٹنگ کی شرح ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی۔
الیکشن کی کوریج کے دوران ووٹرس سے بات کرنے سے ملے جلے بیانات سننے میں آئے۔ ہر ووٹر نے ووٹ ڈالنے کا وجہ بتایا۔ لیکن بیشتر ووٹرس یا عام تاثر یہی رہا کہ وادی میں لوگ حکمران جماعت بی جے پی کے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کے خلاف ہے اور ووٹ سے ہی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
نوجوانوں میں یہی رائے پائی گئی کہ جیلوں میں قید نوجوانوں کو رہا کیا جائے۔ یہی وجہ رہی کہ پہاڑ جیل میں قید سابق رکن اسمبلی انجینئر رشید کو نوجوان طبقے نے کافی حمایت کی۔ نوجوان نے انجینئر رشید کے ساتھ بارہمولہ نشست پر ووٹ کے ذریعے سے اظہار ہمدردی جتانے کی کوشش کی۔
کچھ ووٹرس ان کے علاقوں میں تعمیر نو ترقی کے فقدان کو دور کرنے کے لئے ووٹ ڈالنے کے لئے نکلے تھے۔ یہ ووٹرس بجلی فیس میں کمی کا مطالبات کرتے تھے اور موجودہ انتظامہ سے نالاں تھے۔ ان کی رائے تھی کہ انکا منتخب نمائدہ بجلی فیس کمی کرے تاکہ ان کو راحت ملے۔
بیشتر ووٹرس خوف اور خاموشی کے ماحول کے خلاف ووٹ ڈالتے تھے۔ دراصل سرینگر نشست میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے امیدواروں، آغا روح اللہ مہدی اور وحید پرہ کا الیکشن بیانیہ انہیں معاملوں پر مبنی رہا۔ اور ووٹرس نے یہی معاملہ ذہن میں رکھ کر ووٹ ڈالا۔ ضلع اننتناگ اور کلگام میں بھی ایسی باتیں ووٹرس کی طرف سے سننے میں آئی۔
سینئر صحافی اور مصنف گوہر گیلانی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کشمیر میں 1989 سے قبل بھی ووٹنگ کی شرح اچھی خاصی رہا کرتی تھی۔
ان کے مطابق تین دہائیوں کے بعد ووٹنگ کی شرح میں اضافے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن میں بی جے پی کے نیا کشمیر نیریٹیو کو شکست دینا، سیاسی جمود کو توڑنے کی کوشش، خاموشی اور ڈر کے ماحول سے نکلنے کی خواہش، حریت اور عسکری تنظیموں کی جانب سے بائیکاٹ کال کی عدم موجودگی، اپنی علاقائی شناخت، زمین اور ملازمتیں بچانے، اور بی جے پی کی حلیف جماعتوں کے ارادوں کو ناکام بنانا سرفہرست ہیں۔
ETV Bharat / jammu-and-kashmir
کشمیر میں پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ کی شرح میں اتنا اضافہ کیسے ہوا؟ - Lok Sabha Election 2024
رواں پارلیمانی انتخابات میں چیف الیکٹورل افسر کے مطابق ماضی کے انتخابی ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ سرینگر، بارہمولہ اور اننتناگ حلقوں میں ووٹنگ کی شرح حوصلہ کن رہی۔ سوپور، ترال، پلوامہ اور شہر خاص جیسے بائکاٹ والے علاقوں میں ووٹنگ کی شرح ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی۔
Published : May 27, 2024, 10:06 PM IST
یہ بھی پڑھیں: اننت ناگ راجوری نشست پر ریکارڈ ووٹنگ، مودی نے ووٹرز کو دی مبارکباد
کشمیر کے پارلیمانی انتخابات میں کالعدم تنظیم جماعت اسلامی کے ارکان کی جانب سے ووٹ ڈالنا بھی اس الیکشن کی خاص بات اور باعث گفتگو رہی۔ یہ جماعت کی طرف سے سنہ 1987 کے اسمبلی انتخابات کے بعد الیکشن میں شرکت رہی۔ سنہ 1987 کے انتخابات میں جماعت کے امیدوار متحدہ مسلم محاذ (مسلم یونیڈ فرنٹ) کی طرف سے امیدوار تھے، لیکن ان پارلیمانی انتخابات میں انہوں بحیثیت ووٹر شرکت کی۔
اگرچہ جماعت کے بیشتر لیڑران جیلوں میں قید ہے وہیں اس تنظیم سے وابستہ ارکان کی طرف سے ووٹ ڈالنا اور پابندی ہٹانے کی شرط پر اسمبلی الیکشن میں شرکت کرنا آج بھی موضوع بحث ہے۔