سرینگر (جموں و کشمیر):ہائی کورٹ آف جموں کشمیر اینڈ لداخ نے دو ماہ کی مدت کے اندر مرکز کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر میں ایک یا اس سے زیادہ وقف ٹربیونلز کے فوری قیام کی ہدایت جاری کی ہے۔ اس فیصلے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ وقف بورڈ کے خلاف تنازعات رکھنے والے افراد کو قانونی چارہ جوئی کے بغیر نہ چھوڑا جائے، اور انصاف کی فوری فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
جسٹس سنجیو کمار نے وقف بورڈ کی جائیداد پر قابضین کی طرف سے دائر کی گئی رِٹ درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا۔ ان افراد نے جائیدادوں پر قبضے کے لیے بورڈ کو قابل ادائیگی کرایوں میں من مانی اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ عدالت نے وقف ٹربیونل کی عدم موجودگی سے پیدا ہونے والی افرا تفری کی صورتحال کو نوٹ کرتے ہوئے مرکزی زیر انتظام علاقے کی حکومت کو حکم دیا کہ وہ 29 فروری کے فیصلے کی تاریخ سے دو ماہ کے اندر وقف ایکٹ کی دفعہ 83 کے تحت ایک یا اس سے زیادہ ٹریبونل تشکیل دے۔
عدالت، وقف املاک کے متعدد قابضین کی درخواستوں پر سماعت کر رہی تھی جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وقف کی جانب سے کرایہ کو ’’من مانی‘‘ اور غیر معقول طریقے سے بڑھایا گیا ہے۔ اس کے جواب میں وقف بورڈ نے دلیل دی کہ ہائی کورٹ کے پاس اس معاملے میں مداخلت کرنے کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ کورٹ نے استدلال کیا کہ وقف ایکٹ، 1995 کے تحت قائم کردہ وقف بورڈ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت رٹ کردہ دائرہ اختیار کے تابع نہیں ہے، کیونکہ یہ ریاست یا اس طرح کے دائرہ اختیار کے لیے قابل عمل شخص / اتھارٹی کے طور پر اہل نہیں ہے۔