جموں (محمد اشرف گنائی): پانچ فروری کو ایک 25 سالہ شخص مکھن دین، جس پر عسکریت پسندی میں ملوث ہونے کا الزام تھا، نے مبینہ طور پر کٹھوعہ ضلع میں پولیس کے تشدد کے بعد خودکشی کر لی۔ کٹھوعہ کے بلاور کے رہائشی اور گجر برادری کے مکھن دین کی موت سرخیوں میں آگئی اور کئی سیاسی جماعتوں نے معاملے کی جانچ کا مطالبہ کیا جس کے بعد پولیس اور انتظامیہ دونوں کو اس واقعہ کی الگ الگ تحقیقات کا حکم دیا گیا۔
مکھن دین کے اہل خانہ کا الزام
پی ڈی پی رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ التجا مفتی کی بیٹی متوفی مکھن دین کے گھر گئی تھیں۔ مکھن دین کے والد محمد مرید نے کہا کہ پولیس کی وحشیانہ پٹائی نے میرے بیٹے کو مرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا کہ بلاور کے ایس ایچ او نے مکھن دین اور مجھے اوور گراؤنڈ ورکر (او جی ڈبلیو) ہونے کے جھوٹے الزام میں حراست میں لیا تھا اور پولیس نے ہمیں تھانہ بلاور میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں کہا کہ میرے بیٹے کو بہت زہادہ وحشیانہ مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور مرنے پر مجبور کیا گیا۔
قصوروار پولیس اہلکاروں کو سزا دینے کا مطالبہ
مکھن دین کے والد کے مطابق کہ 'میرے بیٹے کی موت کے بعد بھی پولیس نے علاقے کو سیل کر کے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی تاکہ لوگوں کی آواز کو دبایا جا سکے۔' انہوں نے مطالبہ کیا کہ قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور اس کی کاپی میرے حوالے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ کسی کے ساتھ ایسا ظلم نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انصاف چاہیے مالی امداد نہیں۔ مکھن دین کے بڑے بھائی لال دین نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مکھن دین کے قاتلوں پر مقدمہ چلایا جائے۔
محمد مرید نے کہا کہ پولیس کا کریک ڈاؤن اب بھی جاری ہے۔ پولیس کے ذریعے مزید افراد کو اٹھایا جا رہا ہے۔ دریں اثنا، مرید نے بنی حلقہ سے آزاد ایم ایل اے ڈاکٹر رامیشور سنگھ کی تعریف کی، جنہوں نے اس مسئلے کو اجاگر کرنے اور پولیس کے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے میں مدد کی۔
مکھن دین کے پسماندگان میں حاملہ بیوی اور دو بیٹیاں