سرینگر (جموں کشمیر) : نیشنل کانفرنس (این سی) اور کانگریس کی جانب سے جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات سے قبل اتحاد کے اعلان نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کیلئے چیلنج تو پیدا کیا ہے لیکن اس سے زیادہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا پی ڈی پی کیلئے یہ اتحاد کسی بری خبر سے کم نہیں ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ این سی کانگریس اتحاد سے پی ڈی پی کے معدودے چند سیٹوں پر جیت کے امکانات بھی کم ہو گئے ہیں کیونکہ پارٹی میں بغاوت کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا ہے اور لوگ یہ بھولنے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ اسی پارٹی نے 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے سابق ریاست کے زوال کا آغاز کیا تھا۔
کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے ’انڈیا‘ اتحاد کے معاہدے کے مطابق جموں کشمیرمیں سبھی 90 نشستوں پر ایک ساتھ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے پی ڈی پی الگ تھلگ پڑگئی ہے کیونکہ بظاہر دلی کی سطح پر پی ڈی پی بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ اس اتحاد کو جموں صوبے کی 43 سیٹوں پر بی جے پی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا تاہم کشمیر صوبے کی 47 سیٹوں پر کمزور اور بکھری ہوئی اپوزیشن شاید اس اتحاد کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ کمزور پی ڈی پی کے علاوہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پی ڈی پی کی کوکھ سے پیدا ہوئی اپنی پارٹی اور ایسی ہی شبیہہ رکھنے والی سجاد لون کی پیپلز کانفرنس اس اتحاد کیلئے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے۔ چند ایک جگہوں پر عوامی اتحاد پارٹی اور آزاد امیدوار کڑا مقابلہ دے سکتے ہیں۔
جب این سی اور کانگریس سیٹوں کی تقسیم پر بات چیت کر رہے تھے، یہ قیاس کیا جا رہا تھا کہ پی ڈی پی کو اس اتحاد میں شریک کرنے کیلئے غور کیا جا سکتا ہے۔ اخبارات میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کانگریس اور پی ڈی پی کے رہنما اس حوالے سے رابطے میں ہیں لیکن جب اتحاد کا اعلان ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ محض قیاس آرائیاں تھیں، جو کشمیر کی سیاسی افواہ ساز فیکٹری کی پیداوار تھی۔
کانگریس کے ذرائع نے بتایا کہ پی ڈی پی کبھی بھی اتحاد قائم کرنے کے اس عمل میں شریک نہیں تھی بلکہ انکے مطابق اس حوالے سے جو خبریں منظر عام پر آئیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھیں۔ تاہم راہل گاندھی اور کھرگے کی سرینگر آمد کے بعد جب این سی اور کانگریس نے اتحاد کا اعلان کیا تو یہ بات واضح ہوئی کہ پی ڈی پی اس کشتی میں سوار نہیں ہے۔
کانگریس کے ایک سینئر لیڈر، جو سیٹ شیئرنگ بات چیت کا حصہ ہیں، نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ انتخاب سے قبل اتحاد پر غور و خوض صرف این سی اور کانگریس کے درمیان ہو رہا تھا، اس بات چیت میں پی ڈی پی کہیں نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان قبل از انتخابات اتحاد، انڈیا الائنس کی بنیاد کے مطابق کیا گیا تھا۔
نیشنل کانفرنس کے ایک لیڈر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ پی ڈی پی نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں انکے دو امیدواروں کے خلاف الیکشن لڑا جنہیں انڈیا الائنس کے امیدواروں کے طور پر میدان میں اتارا گیا تھا۔ اس پس منظر میں ہم اس پارٹی کے ساتھ اسمبلی انتخابات میں اتحاد کے لیے کیسے بات کر سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پی ڈی پی 1999 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی این سی کی اہم سیاسی مخالف تھی اور اسی پارٹی نے این سی کو پچھلے 25 برسوں میں دو بار اقتدار سے باہر کیا۔ ہم اپنے اہم مخالف کو دوبارہ منظم کرنے میں کیوں مدد کریں جو اب 2019 کے بعد زندہ رہنے کے لئے جد و جہد کر رہا ہے۔ لہذا، کانگریس-این سی مذاکرات کے دوران ہمارے اہم مخالف کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد زیر بحث ہی نہیں تھا۔‘‘