سری نگر: موسم سرما جوں ہی کشمیر میں وارد ہوتا ہے اور برفباری کے امکانات واضح ہونے لگتے ہیں تو سرینگر اور بڑے قصبوں کے ڈاکٹروں ایک اور کام میں جٹ جاتے ہیں۔ وہ حاملہ خواتین کو دور دراز اور ناقابل رسائی مقامات سے ہسپتالوں میں منتقل ہونے کا مشورہ دیتے ہیں یا اسکے لئے ضروری اقدامات کرتے ہیں تاکہ ان عورتوں کی محفوظ ڈیلیوری کو یقینی بنایا جا سکے۔
سڑکوں پر برفباری کی وجہ سے آمدورفت میں مشکل تکالیف سے بچنے کے لیے کئی پہاڑی علاقوں سے حاملہ خواتین کو پہلے ہی ہسپتالوں اور دیگر مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے۔ یہ اقدام اس صورتحال سے بچاؤ کی ایک تدبیر ہے جب برفباری والے علاقوں سے حاملہ خواتین کو ہسپتالوں تک پہنچنے کے لیے چارپائی پر لٹا کر دیہاتی اس چارپائی کو کندھوں پر اٹھاکر اسپتال پہنچاتے تھے۔
جنوبی کشمیر کا ویری ناگ میڈیکل بلاک دور دراز کے پہاڑی دیہاتوں کے ایک وسیع نیٹ ورک پر مشتمل کم و بیش ایک لاکھ کی آبادی کی صحت ضروریات کا خیال کرتا ہے۔ اس علاقے میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے سرکاری اہلکاروں جیسے آشا کارکنوں نے ان خواتین کے گھروں میں جاکر انہیں اسپتال میں بھرتی ہونے کیلئے کہا۔ اسی طرح کشمیر کے محکمہ صحت کے اہلکاروں نے گاڑیوں پر نصب لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے دیہاتوں میں منادی کرائی کہ وہ ان حاملہ خواتین کو اپنے متعلقہ پبلک ہیلتھ سینٹر میں لائیں جنہیں عنقریب ڈیلیوری کا وقت ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار مجید، کمیونٹی ہیلتھ آفیسر (سی ایچ او) ویری ناگ ہیں۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ وہ 4 جنوری سے نامساعد موسمی حالات کے شروع ہونے کے بعد سے 14 حاملہ خواتین کو اپنے ہیلتھ سینٹر میں جمع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کو، ان کے تیمارداروں سمیت موسمیاتی مرکز سرینگر کی طرف سے برف باری کی پیش گوئی کے فوراً بعد صحت کے مراکز میں لایا گیا تھا اور موسم کی صورتحال بہتر ہونے تک انہیں نگرانی میں رکھا گیا تھا۔
حاملہ خواتین کو ان کے گھروں سے ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے اور ایمبولینس میں واپس بھیجا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مجید کے مطابق وہ انہیں نگرانی میں رکھتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو ضروری ٹیسٹ یا یو ایس جی (الٹراسونگرافی) بھی کی جاتی ہے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اس وقفے کے دوران کئی خواتین درد زہ میں بھی مبتلا ہوئیں اور انکی ڈیلیوری عمل میں لائی گئی۔کئی ڈاکٹروں نے کہا کہ اپنے حمل کے آخری ایام میں وہ خواتین جنہیں پیچیدگیوں کے مسائل کا سامنا ہو، سردیو میں یا برفباری سے قبل پرخطر علاقوں سے نسبتاً محفوظ علاقوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ وادی بھر میں محکمہ صحت سرکاری سہولیات میں رجسٹرڈ خواتین کی فہرست تیار کرتا ہے اور اس کے مطابق پہاڑی یا برفانی علاقوں سے نقل مکانی کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ای ڈی ڈی (ڈلیوری کی متوقع تاریخ) کو دیکھتا ہے۔
لیکن ایسا کرنا چنداں آسان نہیں ہوتا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ خطرات کا تصور ہونے کے باوجود حاملہ خواتین کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے کی مزاحمت کرتے ہیں، کیونکہ انہیں بہت سے خدشات ہوتے ہیں جن میں حقیقی خدشات بھی شامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار نے وضاحت کی کہ خاندانوں کو خطرات کے بارے میں آگاہ کرنے اور بعد میں اسپتال منتقل ہونے کیلئے قائل کرنے کی خاطر انتظامیہ اور مقامی گاؤں کے سربراہوں کی کافی مشاورت اور شمولیت کی ضرورت ہے۔ جو لوگ خطرات کے باوجود اسپتال پہنچنے میں تامل کرتے ہیں انکے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے میں آشا ورکرز کا رول کافی اہم ہے۔
انکے مطابق ایمبولینس کے علاوہ دور دراز کے علاقوں میں فور بائی فور گاڑیاں اور بلڈوزر موجود ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ گاڑی قریب ترین قابل رسائی جگہ تک پہنچے جہاں تک مریضوں کو کندھوں یا چارپائیوں پر منتقل کیا گیا ہو۔ لیکن ڈاکٹر ذوالفقار نے کہا کہ اچھی خبر یہ ہے کہ ان مشکلات سے پہنچنے والے علاقوں کے مریضوں کی اکثریت کو ان کے دائرہ اختیار میں سیزرین سیکشن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے حالانکہ ایسی صورتحال جموں و کشمیر میں بہت زیادہ درپیش ہوتی ہے۔ انہوں نے 14 میں سے دو خواتین کی مثالیں پیش کیں جنہوں نے بغیر کسی پیچیدگی کے نارمل ڈیلیوری کے ذریعے دو صحت مند بچوں کو جنم دیا جنکی زچگی کا انتطام انکے ماتحت پی ایچ سی میں کیا گیاتھا ۔
واضح رہے کہ کشمیرکے دس اضلاع میں پبلک ہیلتھ سینٹرز یا پی ایچ سیز کے نیٹ ورک میں فی الوقت 891 مراکز ہیں جن میں صرف 190 چوبیس گھنٹے کام کر رہے ہیں۔ محکمے کے ضوابط کے مطابق ایک پی ایچ سی دیہی علاقوں میں بیس ہزاراور پہاڑی و قبائلی علاقوں میں تیس ہزار کی آبادی کا احاطہ کرتا ہے۔ تاہم، محکمہ صحت کے اندر بہت سے لوگ بنیادی ڈھانچے کی کمی اور عملے کی کمی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انکے مطابق اکثر اوقات حمل میں پیچیدگیوں سے متاثرہ خواتین کو متعلقہ ضلعی ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے، جہاں عملہ کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر بھی موجود ہوتا ہے۔