سرینگر (جموں کشمیر) :’’دو سال کی عمر میں، نارمل حالت میں، ایک بچہ تقریباً 50 الفاظ بولنا شروع کر دیتا ہے الفاظ کے ساتھ ساتھ وہ جملے بھی بولنا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ تین سال کے بعد بچے کے بولنے میں مزید بہتری دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن اگر کوئی بچہ تین سال کی عمر تک یہ سب سیکھنے میں ناکام رہتا ہے تو یہ ثبوت ہے کہ بچہ بولنے میں دشواری کا سامنا کر رہا ہے، جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔‘‘ ان باتوں کا اظہار گورنمنٹ میڈیکل کالج (جی ایم سی) سرینگر میں شعبہ ای این ٹی کے پروفیسر اینڈ ہیڈ ڈاکٹر منظور احمد لٹو نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔
ڈاکٹر منظور نے کہا کہ بعض اوقات بچے کے دیر سے بولنے کا ایک سبب اس کی سماعت میں خرابی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی نشونما کے مسائل اور دماغی صحت بھی اس کے اسباب میں شامل ہو سکتی ہے۔ عام طور پر وقت کے ساتھ ساتھ بچہ اپنی بات سمجھانے کے لیے مختلف اشارے یا آوازیں سیکھ لیتا ہے جبکہ چیزوں کو درست نام اور آواز سے نہ پکارنے کا مطلب بچے کا بات کرنے کے عمل میں تاخیر میں شامل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے والدین کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ بچے کی کیفیات کا مشاہدہ کر کے اس بات کا فیصلہ کریں کہ درحقیقت بچے کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیونکہ علامات کی بناء پر اکثر یہ دونوں مسائل ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر منظور احمد لٹو نے بتایا کہ اگر پیدائشی طور پر بچہ سماعت کے قابل نہ ہوا تو ایسے بچے منہ سے بے معنی آوازيں تو نکال سکتے ہیں لیکن بامعنی الفاظ بولنے کی صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے میں مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جس کی وجہ سے بچے وقت پر بول نہیں پاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بچے کو بولنے کے قابل بنانے کی خاطر ہم الگ الگ طریقہ کار اپناتے ہیں؛ جس میں باریکی سے تشخیص کر کے الگ الگ علاج تفویض کیا جاتا ہے۔ جس میں ہیرینگ ایڈ، اسپیچ تھیرپی اور سرجریز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ روزانہ، او پی ڈی میں ایسے بچے زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں جو سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ کچھ بول بھی نہیں پاتے ہیں۔