سرینگر: جموں کشمیر اسمبلی میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اجلاس کے آخری روز اپنی تقریر میں یونین ٹیریٹری کے پہلے اسمبلی سیشن کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا: ’’اسمبلی اجلاس ایجنڈے اور کامیابیوں کے لحاظ سے تاریخی ہے۔‘‘ عمر عبداللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’یہ حکومت سبھی شہریوں کے لئے مساوی ہے، باوجود اسکے کہ کس نے (ہمیں) ووٹ دیا۔ ہماری حکومت جموں کشمیر کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے پر عزم ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جب وہ 2014 میں اسمبلی کے رکن تھے تو جموں و کشمیر کا اپنا جھنڈا، آئین اور منفرد شناخت ہوا کرتی تھی۔ عمر نے تلخ لہجے میں کہا: ’’اب کچھ بھی باقی نہیں بچا۔‘‘ عمر عبداللہ نے 4 اگست 2019 کے اپنے ’’دکھ بھرے تجربے‘‘ کو بھی یاد کیا جب انہیں دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی اور جموں و کشمیر ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کیے جانے سے قبل حراست میں لے کر ہری نواس میں سب جیل قرار دی گئی جگہ پر رکھا گیا۔ عمر عبداللہ نے کہا، ’’وہ دن بھی گزر گئے۔ جیسا کہ اردو میں کہتے ہیں، رات گئی بات گئی۔‘‘
جموں کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی کے حوالے سے امید کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’’اب میں ایک قریبی منزل کا تصور کر رہا ہوں۔‘‘ بی جے پی پر اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بی جے پی اپنی ذمہ داری میں ناکام رہی: ’’ان کی ذمہ داری تھی کہ ہمیں جواب دہ بنائیں، مگر وہ اس میں ناکام رہے اور اسمبلی کو چھوڑ گئے۔‘‘
سال 2014 کی پی ڈی پی - بی جے پی مخلوط حکومت کے دوران منظور شدہ جی ایس ٹی (GST) کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ اس سے مالی خود مختاری چھن گئی تھی۔ عمر کے مطابق ’’جی ایس ٹی کے نفاذ کا حتمی نتیجہ 5 اگست 2019 کو نکلا۔‘‘ وزیر اعلیٰ نے پی ڈی پی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے مرحوم مفتی سعید اور پھر محبوبہ مفتی نے اقتدار کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ انہوں نے کہا: ’’جو قراردادوں کے متعلق بات کرتے ہیں، انہیں اپنے اندر جھانکنا چاہئے کہ انہوں نے حکومت میں ہوتے ہوئے کیا کیا۔‘‘
خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے قرارداد کے حوالے سے عمر نے کہا کہ ’’حزب اختلاف اسے سمجھوتہ قرار دے رہا ہے۔ انہوں نے مجھے میرے چیمبر میں آکر مبارکباد دی اور اسے تاریخی کہا، مگر پندرہ دن بعد کیونکر یہ تاریخی فیصلہ سمجھوتہ بن گیا؟‘‘ وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے مزید کہا کہ ’’ہمیں موجودہ مرکزی حکومت سے زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ یہ حکومت ہمیشہ نہیں رہے گی۔ کل کو حکومت تبدیل ہوگی، اور ہم نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے قرارداد کے الفاظ کا انتخاب کیا تاکہ مستقبل کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھلا رہے۔‘‘ عمر عبداللہ نے کہا کہ اس قرارداد نے عوام کو اپنی آواز واپس دی ہے۔ ’’لوگوں کو لگا کہ وہ اپنی بات نہیں کہہ سکتے، مگر اب اس قرارداد نے عوام کو امید اور اظہار کا موقع دیا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ مرکزی حکومت کے ساتھ بات چیت اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے حوالے سے قرارداد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اجلاس کے آخری دن کا بائیکاٹ کیا۔ قرارداد ڈپٹی چیف منسٹر سرندر چودھری نے پیش کی تھی اور اسے اکثریتی ووٹوں سے منظور کر لیا گیا تھا جس پر بی جے پی نے احتجاج کیا۔