مشرقی یروشلم: فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے پیر کے روز اپنی حکومت سے مستعفی ہو گیے۔ اس استعفے کو امریکہ کی طرف سے اسرائیل-فلسطین تنازعہ کے حل کے لیے بنائے گئے نئے منصوبوں کے تحت کیے جانے والے اصلاحاتی عمل کے پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن یہ فلسطینی اتھارٹی کے اپنے لوگوں میں قانونی حیثیت کی دیرینہ کمی یا اسرائیل کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کو دور کرنے کے لئے بہت کم کام کرے گا۔ دونوں امریکی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ بھی فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام ہو۔ لیکن اسرائیل امریکہ کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہا ہے۔
یہ فرض کیا جا رہا ہے کہ 30 ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کرنے اور غزہ کو قحط کے دہانے پر دھکیلنے والی یہ جنگ حماس کے کی شکست کے ساتھ ختم ہو گی۔
- فلسطینی اتھارٹی کیا ہے؟
فلسطینی اتھارٹی کو 1990 کی دہائی کے اوائل میں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان عبوری امن معاہدوں کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا، جس کی قیادت یاسر عرفات نے کی تھی۔
اسے مغربی کنارے اور غزہ کے کچھ حصوں میں محدود خودمختاری دی گئی تھی۔ فلسطینیوں کو امید تھی کہ دونوں علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم میں مکمل ریاست کا درجہ حاصل کیا جائے گا۔ مشرقی یروشلم وہ سرزمین ہے جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطی کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ اس ضمن میں فریقین امن مذاکرات کے کئی دور کے بعد بھی کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔ محمود عباس عرفات کی موت کے چند ماہ بعد 2005 میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ حماس نے اگلے سال پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی، جس سے فلسطینی اتھارٹی کے بین الاقوامی بائیکاٹ کا آغاز ہوا۔
عباس کی سیکولر الفتح پارٹی اور حماس کے درمیان اقتدار کی کشمکش 2007 کے موسم گرما میں زور پکڑ گئی، حماس نے ایک ہفتے کی کشیدگی کے بعد غزہ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اس نے عباس کے اختیار کو مؤثر طریقے سے اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں تک محدود کر دیا۔
عباس اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں، مسلح جدوجہد کے مخالف ہیں اور دو ریاستی حل کے لیے پرعزم ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی فورسز نے حماس اور دیگر مسلح گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے لیے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کیا ہے، اور اس کی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ورک پرمٹ، طبی سفر اور دیگر شہری امور میں سہولت فراہم کرنے کے لیے کام کیا ہے۔
- استعفیٰ کا کیا مطلب ہے؟
اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد اشتیہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں نئی حقیقت سے نمٹنے کے لیے نئے انتظامات کی ضرورت ہے۔ محمود عباس نے اشتیہ کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے اور توقع ہے کہ وہ ان کی جگہ محمد مصطفیٰ کو وزیراعظم بنانا چاہیں گے۔ محمد مصطفیٰ ایک امریکی تعلیم یافتہ ماہر اقتصادیات ہیں جو عالمی بینک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ محمد مصطفیٰ اس وقت فلسطین انویسٹمنٹ فنڈ کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ 2013-2015 تک نائب وزیر اعظم اور وزیر اقتصادیات رہے ہیں۔
مصطفیٰ کی شبیہ اشتیہسے بالکل مختلف ہے۔ مصطفیٰ ، شطیہ کی طرح الفتح کے وفادار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصطفیٰ کی تقرری کا امریکہ، اسرائیل اور دیگر ممالک خیر مقدم کریں گے۔
مصطفیٰ کی اپنی کوئی سیاسی بنیاد نہیں ہے، اور 88 سالہ عباس اب بھی کسی بھی بڑی پالیسی پر حتمی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ پھر بھی، اس تقرری سے ایک اصلاح شدہ، پیشہ ور فلسطینی اتھارٹی کی تصویر سامنے آئے گی جو غزہ کو چلا سکتا ہے اور یہی بات امریکہ کے لیے اہم ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کا کہنا ہے کہ یہ فلسطینیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے قائدین کا انتخاب کریں، لیکن یہ کہ امریکہ فلسطینی اتھارٹی میں "اصلاحات اور احیاء" کے لیے کسی بھی اقدام کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ، "ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدامات مثبت ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فلسطینی اتھارٹی کے تحت غزہ اور مغربی کنارے کو دوبارہ متحد کرنے کے لیے ایک اہم قدم ہیں۔"
- فلسطینی اتھارٹی کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟