ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف عدم تعاون کی تحریک کے پہلے دن اتوار کو ملک بھر میں شدید تشدد اور آتش زنی ہوئی۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور حکمران عوامی لیگ کے حامیوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ جس میں 14 پولیس اہلکاروں سمیت 90 سے زائد افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر میں پرتشدد جھڑپوں میں اب تک 91 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پولیس ہیڈ کوارٹر کے مطابق تشدد میں 14 پولیس اہلکار مارے گئے ہیں۔ ان میں سے 13 کی موت سراج گنج کے عنایت پور تھانے میں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر تشدد کے پیش نظر وزارت داخلہ نے اتوار کی شام 6 بجے سے ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے فیس بک، میسنجر، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ موبائل آپریٹرز کو 4G موبائل انٹرنیٹ بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مظاہرین نے اتوار کی صبح طلبہ کے بینر تلے حکومت کے استعفے اور امتیازی سلوک کے یک نکاتی مطالبے کے ساتھ عدم تعاون کی تحریک شروع کی۔ اس دوران وزیر اعظم حسینہ کی پارٹی عوامی لیگ، چھاتر لیگ اور جوبو لیگ کے کارکنوں نے ان کی مخالفت کی جس کے بعد دونوں گروپوں میں پرتشدد تصادم ہوا۔
- وزیر اعظم حسینہ واجد کا مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا حکم:
دریں اثناء وزیر اعظم حسینہ واجد نے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات دی ہیں۔ سرکاری بیان میں انہوں نے کہا کہ احتجاج کے نام پر ملک بھر میں توڑ پھوڑ کرنے والے طلبہ نہیں بلکہ عسکریت پسند ہیں۔ میں ملک کے عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ ان عسکریت پسندوں کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔
میڈیا رپورٹ میں وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم حسینہ نے گڑ بھون میں قومی سلامتی امور کی کمیٹی کی میٹنگ کی۔ جس میں آرمی، نیوی، ایئر فورس، پولیس، آر اے بی، بی جی بی اور دیگر اعلیٰ سیکورٹی حکام نے شرکت کی۔
- ملک میں تین روزہ تعطیل کا اعلان: