لندن: پورا برطانیہ صرف 10 دن پہلے ساؤتھ پورٹ میں ہلاک ہونے والی نوجوان لڑکیوں کے غم میں اور ان کے سوگوار خاندانوں کے ساتھ متحد تھا۔ لیکن انتہائی دائیں بازو کے مشتعل افراد نے اس واقعے کو ہائی جیک کر لیا۔ شدت پسندوں نے اس معاملے کو مسلمانوں سے جوڑ دیا۔ اگلے دن، جب لوگ ایک دوسرے کو تسلی دینے اور قتل کے مقام پر پھول چڑھانے کے لیے جمع ہوئے، سینکڑوں مظاہرین نے ایک مقامی مسجد پر اینٹوں، بوتلوں اور پتھروں سے حملہ کر دیا۔ پولیس کے مطابق فسادیوں کا تعلق انگلش ڈیفنس لیگ سے ہے جو ایک انتہائی دائیں بازو کا گروپ ہے جس نے 2009 سے مسلم مخالف مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
ویلز اور شمالی آئرلینڈ سمیت برطانیہ کے بیشتر حصوں میں فسادات پھیل چکے ہیں۔ تاہم، بدامنی کی اکثریت انگریزی شہروں اور قصبوں میں زیادہ ہے۔ برطانیہ کے ایلڈر شاٹ، بیلفاسٹ، برمنگھم، بلیک برن، بلیک پول، بولٹن، برسٹل، کارڈف، ڈارلنگٹن، ہارٹل پول، ہائی وائی کامبی، ہل، لیڈز، لیسٹر، لیورپول، لندن، مانچسٹر، مڈلزبرو، ناٹنگھم، پلائی ماؤتھ، پورٹسماؤتھ میں فسادات پھیل چکے ہیں۔
ابتدائی طور پر برطانوی وزیر اعظم پر فسادات کا جواب دینے میں بہت سست روی کا الزام عائد کیا گیا تھا، لیکن اب وہ امن و امان پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مضبوطی کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔
برطانوی وزیراعظم اسٹارمر نے شہر میں فسادات کے دوران ہونے والے جرائم کے لیے لیورپول میں تین افراد کو جیل بھیجنے کے جواب میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ، "یہ وہ تیز کارروائی ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ "اگر آپ ہماری سڑکوں پر یا آن لائن پرتشدد انتشار پھیلاتے ہیں، تو آپ کو قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔"
لندن کے میئر صادق خان نے پرتشدد مظاہروں کی روشنی میں رہائشیوں سے اپنے اقلیتی دوستوں، خاندان، پڑوسیوں اور ساتھیوں کا خیال رکھنے کی اپیل کی ہے۔ گزشتہ رات ایکس پر، خان نے لکھا کہ کمیونٹیز کو تشدد کے علاوہ نفرت کے خطرے کا سامنا ہے، جو کہ نسل پرستی، تعصب اور اسلامو فوبیا کی وجہ سے ہوا ہے"۔