برسلز: آئرلینڈ اور بلاک کے اعلیٰ سفارت کار نے جمعرات کو کہا کہ، یورپی یونین کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ غزہ اور مغربی کنارے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسرائیلی حکومت کے کچھ وزراء پر نسلی منافرت پھیلانے کے الزام میں پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔
برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں، آئرلینڈ کے وزیر خارجہ نے اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ غزہ میں جان بوجھ کر حماس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
مائیکل مارٹن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ "یہ صرف حماس کے خلاف نہیں بلکہ فلسطینیوں کے خلاف جنگ ہے۔ شہریوں کی ہلاکتوں کی سطح غیر معقول ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ، "یہ آبادی کے خلاف جنگ ہے، اس کو ٹالنے کی کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔"
غزہ میں اسرائیلی جارحیت میں 40,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، مقامی صحت کے حکام کے مطابق، 90 فیصد آبادی بے گھر ہو گئی ہے اور اس کے اہم شہر تباہ ہو گئے ہیں۔ حماس نے ہزاروں جنگجوؤں اور اپنے عسکری ڈھانچے کا بڑا حصہ بھی کھو دیا ہے۔
7 اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل کے اندر حملے کے بعد سے مغربی کنارے میں بھی تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل نے اس ہفتے مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تھا، جس میں حماس کے اعلیٰ کمانڈر کے علاوہ 17 فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں۔ حماس کے مطابق اس کے دس جنگجو مختلف مقامات پر مارے گئے ہیں۔
مارٹن نے کہا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے جاری کردہ قانونی رائے میں کہا گیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے جو یورپی یونین کو اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ فلسطینیوں نے اسے "فلسطین، انصاف اور بین الاقوامی قانون کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا ہے۔
مارٹن نے صحافیوں کو بتایا کہ "یہ معمول کے مطابق کاروبار نہیں ہو سکتا۔" "یہ ہمارے لیے بالکل واضح ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔"
یورپی یونین اور اسرائیل بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، ان کے درمیان تعلقات ایک نام نہاد ایسوسی ایشن کے معاہدے کے تحت چلتے ہیں۔ آئرلینڈ اور اسپین اپنے یورپی یونین کے شراکت داروں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ، اسرائیل نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
یورپی یونین فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ یورپی یونین کے 27 رکن ممالک ہیں جن میں اسرائیل کو لے کر اپنا اپنا الگ نقطہ نظر ہے۔