سائلرزبرگ، پنسلوانیا: فتح اللہ گولن انتقال کر گئے۔ فتح اللہ گولن امریکہ میں مقیم ایک ایسے ترک مذہبی عالم تھے جن پر اپنے آبائی ملک ترکی میں 2016 کی ناکام بغاوت کے ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام تھا۔ سویڈن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ٹوڈے زمان اخبار کے سابق ایڈیٹر عبداللہ بوزکرت نے پیر کو کہا کہ انہوں نے گولن کے بھتیجے کمال گولن سے بات کی، جس نے موت کی تصدیق کر دی ہے۔ فتح اللہ گولن تقریباً 80 سال کے تھےاور وہ طویل عرصے سے ناساز تھے۔
ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ترک انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے گولان کی موت کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں ایک بیان میں کہا کہ، ’’اس تاریک تنظیم کا رہنما مر گیا ہے۔
گولن نے اپنی زندگی کی آخری دہائیاں خود ساختہ جلاوطنی میں گزاریں۔ وہ پنسلوانیا کے پوکونو پہاڑوں میں رہتے ہوئے ترکی اور پوری دنیا میں اپنے لاکھوں پیروکاروں کے درمیان اثر و رسوخ قائم کرتے رہے۔ گولن ایک ایسے فلسفے کی حمایت کرتے رہے جسے تصوف کہا جاتا ہے۔ اسے اسلام کی ایک صوفیانہ شکل بھی کہا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ جمہوریت، تعلیم، سائنس اور بین المذاہب مکالمے کی بھرپور وکالت کرتے رہے۔
گولن نے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے اتحادی کے طور پر شروعات کی تھی، لیکن آگے چل کر دونوں میں شدید دشمنی آ گئی۔ گولن نے اردگان کو طاقت کے بل بوطے حکومت کرنے اور اختلاف رائے کو کچلنے پر تلا ہوا آمر قرار دیا تھا۔ اردگان نے گولن پر 15 جولائی 2016 کی رات فوجی بغاوت کی کوشش کا الزام لگاتے ہوئے اسے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ 2016 میں فوج کے اندر موجود دھڑوں نے اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی جس میں ٹینک، جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا گیا تھا۔
ترک صدر کی طرف سے ایک کال پر عمل کرتے ہوئے، ہزاروں لوگ فوجی بغاوت کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ بغاوت کے منصوبہ سازوں نے ہجوم پر گولیاں برسائیں اور پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں پر بمباری کی تھی۔ اس بغاوت میں مجموعی طور پر 251 افراد ہلاک اور 2200 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اس میں تقریباً 35 مبینہ بغاوت کے منصوبہ ساز بھی مارے گئے تھے۔
گولن نے بغاوت میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی تھی، اور ان کے حامیوں نے الزامات کو مضحکہ خیز اور سیاسی طور پر محرک قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ ترکی نے گولن کو اپنی مطلوب ترین فہرست میں شامل کرتے ہوئے امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا، لیکن امریکہ نے گولن کو واپس بھیجنے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکہ نے اس وقت ترکی سے گولن کے خلاف مزید شواہد مانگے تھے۔ گولن پر کبھی بھی امریکہ میں کسی جرم کا الزام نہیں لگایا گیا۔