اردو

urdu

ETV Bharat / international

پاکستان میں عام انتخابات: ووٹنگ سے پہلے اہم لیڈروں پر ایک نظر - پاکستان عام انتخاب 2024

Pakistan General Election 2024 پاکستان پارلیمانی انتخابات کی تیاری کر رہا ہے جہاں آٹھ فروری بروز جعرات کو ووٹنگ ہونی ہے۔ اس انتخابات میں 44 سیاسی جماعتیں 272 پارلیمانی نشستوں کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں۔

Pakistan General Election 2024
پاکستان میں عام انتخاب: ووٹنگ سے پہلے اہم لیڈروں پر ایک نظر

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 6, 2024, 8:08 PM IST

Updated : Feb 7, 2024, 2:54 PM IST

اسلام آباد: پاکستان میں آٹھ فروری بروز جمعرات کو نئی پارلیمنٹ کے لیے انتخابات ہونے والے ہیں۔ جس میں کم از کم 44 سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی یا پارلیمنٹ کی ایوان زیریں کی 272 نشستوں میں حصہ لینے کے لیے میدان میں ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی 342 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں سے 272 نشستوں پر اراکین براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے لیے 10 اور خواتین کے لیے 60 نشستیں بھی مخصوص ہیں، جنہیں 5 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے والی جماعتوں کے درمیان میں نمائندگی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

یہ الیکشن ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں پر سویلین حکومتوں کو متعدد دفعہ فوجی قبضے سے متاثر کیا گیا ہے۔ یہاں پر فوج نے اپنی آزادی کے 76 سالوں میں سے نصف تک قوم پر حکمرانی کی ہے۔ لیکن اس ووٹنگ سے پہلے ہم ان کھلاڑیوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی سیاست میں کافی مقبول ہیں اور سیاست بھی انھیں کے ارد گرد گھومتی رہتی ہے۔

ان اہم کھلاڑیوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور سابق وزیراعظم عمران خان شامل ہیں۔ نواز شریف قانونی لڑائیوں کے درمیان چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے کوشاں ہیں، جب کہ جنرل عاصم منیر کا اس الیکشن میں اثر بھی نمایاں ہے۔

وہیں عمران خان کو قانونی رکاوٹوں کا سامنا ہے لیکن پھر بھی انہیں عوامی سطح پر کافی زیادہ حمایت حاصل ہے۔ شہباز شریف جو کی نواز شریف کے بھائی ہیں اور بینظیر بھٹو کی میراث کی نمائندگی کرنے والے بلاول بھٹو زرداری بھی اقتدار کے لیے لڑ رہے ہیں۔

عام انتخاب سے پہلے پاکستان کے اہم لیڈروں پر ایک نظر

سابق وزیر اعظم نواز شریف: پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این)

سابق وزیر اعظم نواز شریف: پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این)

تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے نواز شریف کا تعلق ان دو سرفہرست خاندانوں میں سے ایک ہے جن کا کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست پر دبدبہ رہا ہے۔ ان کی پاکستان مسلم لیگ نواز پارٹی نے 2007 اور 2013 میں بھاری کامیابیاں حاصل کی تھی، لیکن 74 سالہ نواز شریف نے کبھی بھی اپنے عہدے کی مدت پوری نہیں کی اور ہر بار انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ نواز شریف کو فوج، سپریم کورٹ اور ایک بار صدر کے ذریعے اقتدار سے معزول کیا گیا۔

دیگر پاکستانی سابق وزرائے اعظم کی طرح نواز شریف بھی قانونی مقدمات اور جیل کی سزاؤں کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان کی ایک عدالت نے 2020 میں گرفتاری کا وارنٹ جاری کرکے نواز شریف کو خبردار کیا کہ اگر وہ بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی سے واپس نہیں آئے تو انہیں مفرور قرار دے دیا جائے گا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں ملک واپسی کے بعد عدالتوں کی جانب سے ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور انھیں نااہل سے اہل بھی قرار دے دیا گیا جس فیصلے نے نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے راستہ ہموار کردیا۔

2018 کے انتخابات میں نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ ہوا جب وہ قانونی مقدمات میں گھرے ہوئے تھے اور عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ اب ان کے حریف عمران خان سلاخوں کے پیچھے ہیں تو تجزیہ کاروں نے نواز شریف کی ایک اور جیت کی پیش گوئی کی ہے۔

جنرل عاصم منیر (پاکستان آرمی چیف)

جنرل عاصم منیر (پاکستان آرمی چیف)

پاکستانی فوج نے ہمیشہ اہم حکومتی فیصلوں میں خود کو حتمی ثالث کے طور پر پیش کیا ہے، حالانکہ یہ سب اکثر و بیشتر پردے کے پیچھے ہوتا ہے۔ موجودہ جنرل عاصم منیر فوج کے سربراہ کے طور پر پاکستان کی سیاست میں اب بھی بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

جنرل عاصم منیر نے اپنے پیشروؤں سے کم پروفائل اپنے پاس رکھا ہے لیکن انھوں نے عام شہریوں کے لیے فوجی ٹرائلز اور غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم غیر ملکی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اہتمام کیا ہے۔ اس اقدام کی بین الاقوامی اور مقامی حقوق کی تنظیموں نے مذمت کی ہے۔ اس فیصلے سے بنیادی طور پر پاکستان میں رہنے والے 1.7 ملین افغانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس ماہ کے شروع میں ایران کو جوابی فضائی حملے کرنے کے پیچھے بھی عاصم منیر کا ہاتھ تھا جس نے تہران اور اسلام آباد کے درمیان تیزی سے کشیدگی کو بڑھا دیا۔ ان کے غیر سمجھوتہ کرنے والے موقف کا دو طرفہ تعلقات، سیاسی استحکام اور علاقائی سلامتی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

جیل میں قید عمران خان کو سیاست سے دور رکھنے میں بھی ان کا ذاتی اثرو رسوخ ہے۔ عاصم منیر عمران خان کے دور حکومت میں ملک کی جاسوسی ایجنسی چلاتے تھے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کی طرف سے بغیر کسی وضاحت کے انہیں برطرف کر دیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان: پاکستان تحریک انصاف پارٹی ( پی ٹی آئی)

سابق وزیر اعظم عمران خان: پاکستان تحریک انصاف پارٹی ( پی ٹی آئی)

ایک کامیاب کرکٹر سے اسلام پسند سیاست دان بننے والے عمران خان نے 2018 کے انتخابات میں اینٹی کرپشن کا نعرہ دے کر فتح حاصل کرکے مخلوط حکومت بنائی، لیکن ان کی وزارت عظمیٰ مشکلات کا شکار تھی کیونکہ ان کی انتظامیہ نے حزب اختلاف کی شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ ان کے ناقدین نے کہا کہ عمران خان آزادی اظہار کے تحفظ میں ناکام رہے ہیں۔

71 سالہ عمران خان نے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کے لیے امریکہ کو ناشکرا قرار دیا اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا۔ جس کو امریکہ نے پاکستان میں حملہ کرکے ہلاک کردیا تھا۔ عمران خان کو بالآخر اپریل 2022 میں پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول کر دیا گیا۔ جس کے بعد خان نے عوام کی طرف رخ کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت کو گرانے کے پیچھے واشنگٹن اور اس کے مخالفین کی سازش تھی۔

حکومت گرنے کے بعد عمران خان کے خلاف 200 سے زیادہ قانونی مقدمات درج ہیں اور وہ اگست سے جیل میں بھی قید ہیں، جن میں توشہ خانہ بدعنوانی، ریاستی راز افشا کرنے اور غیر شرعی نکاح میں انھیں اب تک 31 سال کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ ان کی قانونی سزاؤں نے انہیں الیکشن لڑنے سے بھی روک دیا ہے لیکن ان کی پارٹی انتخاب میں بطور آزاد امیدوار کے حصہ لے رہی کیونکہ عدالت ان کا انتخابی نشان بھی ضبط کر لیا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان کی پارٹی عوام میں زبردست حمایت حاصل ہے۔

سابق وزیر اعظم شہباز شریف: پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این)

سابق وزیر اعظم شہباز شریف: پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این)

نواز شریف کے چھوٹے بھائی 72 سالہ شہباز شریف اپریل 2022 میں عمران خان کی جگہ وزیر اعظم مقرر کیے گئے۔ وہ اس سے قبل تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ جو ملک کا سب سے بڑا اور بااثر صوبہ ہے کیونکہ یہ ملک کی 240 ملین کی آبادی کا نصف بھی ہے۔ شہباز شریف نے اپنی پارٹی کی قیادت اس وقت کی جب ان کے بھائی لندن میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور وہ اس وقت وزیر اعظم بن گئے جب پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ نے عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔

شہباز شریف کے دور اقتدار کے دوران پاکستان 2022 کے موسم گرما میں غیر معمولی بارشوں اور طوفانی سیلاب سے متاثر ہوا، جس میں 1,700 افراد ہلاک ہوگئے، اس وقت ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا تھا۔ تاہم، شہباز نے قومی ایمرجنسی کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کو سنبھالنے کے لیے بھی جدوجہد کی اور توانائی کے نرخوں میں خاطر خواہ اضافے پر اتفاق کرتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ بھی حاصل کیا، جس کی وجہ سے روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا۔

شہباز شریف کے اس اقدام نے ان کو اور پارٹی دونوں کو غیر مقبول بنا دیا۔ پاکستان کے آئین کے تحت، شہباز شریف نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب گزشتہ اگست میں پارلیمنٹ تحلیل کر دی گئی اور ایک نگران وزیر اعظم نے انتخابات تک اقتدار سنبھال لیا۔ اگر ان کی پارٹی جمعرات کو ہونے والے عام انتخابات میں جیت درج کرتی ہے تو ممکنہ طور پر شہباز شریف اپنے بھائی کی کابینہ میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری:پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)

بلاول بھٹو زرداری:پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)

پاکستان کے اگلے وزیر اعظم کے لیے سب سے کم عمر امیدوار بلاول بھٹو زرداری ہیں، جو مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں، جنہوں نے 1970 کی دہائی میں قوم کی قیادت کی لیکن ان کا تختہ الٹ دیا گیا اور انہیں فوج کی طرف سے پھانسی دے دی گئی۔

بلاول بھٹو زرداری اپنے خاندانی سیاسی پارٹی کے چیئرمین بن گئے ہیں جب ان کی والدہ کو 2007 میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ سیاست میں بلاول بھٹو زرداری کی زندگی کو بھی ان کے والد آصف علی زرداری نے تشکیل دیا، جنہوں نے 2008 سے 2013 تک پاکستان کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

انہوں نے 2018 میں اپنی پہلی پارلیمانی نشست جیتی اور عمران خان کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد وزیر خارجہ بن گئے۔ بلاول بھٹو کی طاقت کا مرکز جنوبی صوبہ سندھ میں ہے، جو ایک زرعی اور تجارتی مرکز ہے، لیکن ان کی پارٹی کو اتنے ووٹ ملنے کا امکان نہیں ہے کہ وہ انہیں وزیر اعظم بنا سکے۔ یہ اب بھی شریف کی زیر قیادت مخلوط حکومت کا حصہ بن سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

پاکستان میں عام انتخابات، سیاسی جماعتوں کا بھارت مخالف بیانات سے پرہیز کیوں؟

پاکستان میں آزادانہ انتخابات پر الہان عمر نے اٹھائے سوال

Last Updated : Feb 7, 2024, 2:54 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details