اردو

urdu

ETV Bharat / entertainment

موسیقار نوشاد علی نے مغل اعظم میں موسیقی دینے سے پہلے انکار کیوں کیا تھا؟ - Naushad Death Anniversary - NAUSHAD DEATH ANNIVERSARY

کہا جاتا ہے کہ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف نے جب نوشاد کے سامنے 50ہزار روپے کے نوٹوں کا بنڈل پھینکا تو نوشاد کو اس بات پر بے اتنا غصہ آیا کہ انھوں یہ کہہ دیا کہ ایسا ان لوگوں کے لئے کرنا جو بغیر ایڈوانس فلموں میں موسیقی نہیں دیتے۔ میں آپ کی فلم میں موسیقی نہیں دوں گا۔

Etv Bharat
موسیقار نوشاد علی معروف گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ (Etv Bharat)

By UNI (United News of India)

Published : May 5, 2024, 2:31 PM IST

ممبئی: سنہ 1960میں ریلیز ہوئی عظیم شاہکار فلم مغل اعظم کی سحر انگیز موسیقی آج بھی اسی طرح مقبول ہے جیسی اس وقت تھی جب یہ فلم ریلیز ہوئی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دور جدید کی نسل آج بھی اس فلم کے نغمے سنتی اور گنگناتی ہے لیکن اس فلم کے موسیقار نوشاد علی نے اس فلم میں موسیقی دینے سے انکار کر دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ مغل اعظم کے ہدایت کار کے آصف جب نوشاد کے گھر ان سے ملنے گئے۔ وہ اس وقت ہارمونیم پر کوئی دھن تیار کر رہے تھے۔ اسی وقت آصف نے 50ہزار روپے کے نوٹوں کا بنڈل ہارمونیم پر پھینکا، نوشاد کو اس بات پر بے انتہا غصہ آیا اور نوٹوں کا پھینکا ہوا بنڈل واپس کرتے ہوئے نوشاد نے کہا کہ ایسا ان لوگوں کے لئے کرنا جو بغیر ایڈوانس فلموں میں موسیقی نہیں دیتے۔ میں آپ کی فلم میں موسیقی نہیں دوں گا۔ بعد میں کے آصف کی منت سماجت پر نوشاد نہ صرف فلم میں موسیقی دینے کے لئے تیار ہوئے بلکہ اس کےلئے ایک پیسہ تک نہیں لیا۔

لکھنؤ کے ایک متوسط مسلم خاندان میں 25دسمبر 1919 کو نوشاد کی پیدائش ہوئی۔ ان کا رجحان بچپن سے ہی موسیقی کی طرف تھا اور انہیں اپنے اس شوق کو پروان چڑھانے کے لئے اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرنی پڑتی تھی۔

موسیقار نوشاد علی (Etv Bharat)

ان کے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ تم گھر یا موسیقی میں سے ایک کو منتخب کرو۔ اسی دوران لکھنؤ میں ایک ڈرامہ کمپنی آئی اور نوشاد نے آخر کار ہمت کرکے اپنے والد سے کہہ دیا ’’آپ کو آپ کا گھر مبارک اور مجھے میری موسیقی‘‘ اس کے بعد وہ گھر چھوڑ کر اس ڈرامہ کمپنی میں شامل ہوگئے اور اس کے ساتھ جےپور، جودھپور، بریلی اور گجرات جیسے بڑے شہروں میں گھومتے رہے۔

نوشاد کے بچپن کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے۔ لکھنؤ میں بھوندومل اینڈ سنس کی موسیقی کے آلات کی ایک دکان تھی جسے موسیقی کے دیوانے نوشاد حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ ایک بار دکان کے مالک نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ وہ یہاں کیوں کھڑے رہتے ہیں۔ نوشاد نے کہا کہ وہ ان کی دکان میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ نوشاد کا ارادہ تھا کہ وہ اسی بہانے موسیقی کے آلات پر ریاض کر سکیں گے۔

ایک دن دکان کے مالک نے انہیں ریاض کرتے ہوئے دیکھ لیا اور انہیں ڈانٹ لگائی کہ انہوں نے آلات گندے کردئے لیکن بعد میں اس نے محسوس کیا کہ نوشاد بہت خوبصورت دھن بجا رہے تھے جس کے بعد اس نے نہ صرف انہیں موسیقی کے آلات تحفہ میں دئے بلکہ ان کے لئے موسیقی سیکھنے کا انتظام بھی کردیا۔

یہ سال 1937 کا تھا جب نوشاد اپنے ایک دوست سے 25روپے بطور قرض لے کر موسیقار بننے کا خواب آنکھوں میں لئے ممبئی آئے، لیکن یہاں آکر انہیں مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ عالم یہ تھا کہ کئی راتیں انہیں فٹ پاتھ پر گزارنی پڑیں۔

اس دوران ان کی ملاقات فلم ساز اور ہدایت کار اے آر کاردار سے ہوئی، انہی کی سفارش پر نوشاد کو موسیقار حسین خان کے یہاں 40 روپے فی ماہوار پر پیانو بجانے کا کام ملا۔

اس کے بعد انہوں نے موسیقار کھیم چندر پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ بطور موسیقار نوشاد کو 1940میں فلم پریم نگر میں پہلی بار 100روپے ماہوار پر کام کرنے کا موقع ملا۔

1944میں ریلیز فلم رتن میں ان کی موسیقی سے آراستہ نغمہ’انکھیاں ملا کے جیا بھرما کے چلے نہیں جانا‘ کی کامیابی کے بعد نوشاد 25ہزار روپے اجرت کے طور پر لینے لگے اور اس کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ اس کے بعد وہ فلموں میں بہترین موسیقی دیتے رہے اور ان کی مقبولیت میں ہر روز اضافہ ہوتا رہا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details