گوپال گنج:این سی پی (اجیت دھڑے) کے رہنما اور مہاراشٹر حکومت کے سابق وزیر بابا صدیقی کو ہفتہ کی رات ممبئی کے باندرہ ایسٹ میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ بابا صدیقی کے والد کا نام عبدالرحیم صدیقی اور والدہ کا نام رضیہ صدیقی تھا۔ بابا صدیقی کی اہلیہ کا نام شہزین صدیقی ہے اور ان کے دو بچے ڈاکٹر عرشیہ صدیقی اور ذیشان صدیقی ہیں۔
وہ بہار کے رہنے والے تھے۔ ان کا آبائی گاؤں گوپال گنج ضلع کے مانجھا گڑھ بلاک کے شیخ ٹولی میں ہے۔ ان کی موت سے گاؤں میں غم کی لہر ہے۔ وہ اکثر اپنے گاؤں جایا کرتے تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے گاؤں کے لیے کچھ بڑا کام کرنا چاہتے ہیں۔ عبدالرحیم صدیقی میموریل ٹرسٹ بھی ان کے والد کے نام پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ ٹرسٹ مانجھا گڑھ بلاک کے سرکاری اسکولوں میں 10ویں کلاس کے ٹاپرز کو ایوارڈ دیتا ہے۔
گھڑی ساز سے وزیر تک کا سفر
بابا صدیقی 13 ستمبر 1958 کو پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام بابا ضیاء الدین صدیقی تھا۔ آخری بار وہ چھ سال پہلے 2018 میں اپنے گاؤں شیخ ٹولی آئے تھے۔ اس کے بعد دو سال پہلے بھی وہ ایک خصوصی پروگرام میں شرکت کے لیے گوپل گنج آئے تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ ممبئی کے باندرہ میں اپنے والد کے ساتھ وہ گھڑی بنانے کا کام کرتے تھے اور وہ اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے چل کر 1977 میں ممبئی یوتھ کانگریس کے جنرل سکریٹری بنے۔ پھر وہ فلمی اداکار اور کانگریس لیڈر سنیل دت کے رابطے میں آئے۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور لگاتار تین بار ممبئی کے باندرہ ایسٹ سے ایم ایل اے بنے۔ اس دوران انہیں وزیر مملکت بھی بنایا گیا۔
بابا صدیقی کے سیاسی سفر پر سرسری نظر
بابا صدیقی کا سیاسی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنے سایسی سفر کا آغاز کانگریس پارٹی کے ساتھ کیا تھا اور رواں سال چھوڑ کر ہمیشہ کانگریس کے ساتھ ہی وابستہ رہے۔ اسی سال فروری میں انہوں نے کانگریس چھوڑ کر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ اپنے سیاسی کریئر کے دوران وہ مہاراشٹر حکومت اور ممبئی یوتھ کانگریس میں کئی بااثر عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
صدیقی نے 1977 میں نوجوانی میں ہی کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ حالانکہ اس سے قبل وہ اپنے والد کے ساتھ گھڑی سازی کے کام سے بھی وابستہ رہے۔ 1980 میں وہ باندرہ تعلقہ یوتھ کانگریس کے جنرل سکریٹری بنے اور 1982 میں وہ باندرہ تعلقہ یوتھ کانگریس کے صدر بن گئے۔ 1988 میں وہ ممبئی یوتھ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1992 میں وہ ممبئی میونسپل کارپوریشن (BMC) میں میونسپل کونسلر منتخب ہوئے۔
بابا صدیقی کو لگاتار تین بار ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ پہلی بار وہ 1999 میں ایم ایل اے بنے۔ اس کے بعد 2004 میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ انہوں نے رکن اسمبلی کی حیثیت سے 2009 میں مسلسل تیسری جیت حاصل کی۔
2000 سے 2004 تک، وہ مہاراشٹر ہاؤسنگ اینڈ ایریا ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ممبئی بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ 2004 اور 2008 کے بیچ انہیں مہاراشٹر حکومت میں خوراک اور سول سپلائیز، لیبر، ایف ڈی اے، اور کنزیومر پروٹیکشن کا وزیر مملکت بنایا گیا۔
بابا صدیقی کا گاؤں کے لیے بڑا کام کرنے کا خواب
آخری بار جب وہ اپنے گاؤں آئے تھے تو انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ہونہار طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنے کی بات کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ تعلیم کے میدان میں کام کرنے کے لیے گوپال گنج آئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے نمایاں شعبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس میں ذات پات اور مذہب آڑے نہیں آئے گا۔ اس نے بتایا تھا کہ میرے والد ممبئی میں گھڑیاں بناتے تھے، مگر وہ اپنا گھر کبھی نہیں بھولے۔ ان کی طرح مجھے بھی اپنے گاؤں سے وہی لگاؤ ہے جو میرے والد کو تھا۔ بہار تعلیم کی سرزمین ہے۔ بہار کے لوگوں نے محنت سے ملک اور دنیا میں کامیابی کا جھنڈا لہرایا ہے۔ حالانکہ اچانک موت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اپنے گاؤں کے لیے کچھ بڑا کرنے کا ان کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔
بابا صدیقی کے رشتے دار شیخ ٹولی گاؤں میں رہائش پذیر