اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

عدم تشدد کے اصولوں کے حامی خان عبدالغفار خان کا آج یوم پیدائش

the Frontier Gandhi's Birthday خان عبدالغفار خان نے 20 سال کی عمر ہی ميں ايک اسکول کھول لیا تھا اور اُس وقت برٹش راج کے زير اقتدار ہندوستان کے دورے کر کے اپنے نظريات کا خوب پرچار کيا۔ سرحدی گاندھی کے نام سے مشہوربادشاہ خان اس بات کے قائل تھے کہ انسان کو حقيقی عزت اُس کے خاندانی پس منظر کے بجائے اُس کے افعال اور برتاؤ سے ملتی ہے۔

Etv Bharat
Etv Bharat

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 6, 2024, 12:43 PM IST

حیدرآباد: پشتون عبدالغفارخان 6 فروری سن 1890 ميں آج کے پاکستان کے شمال مغربی صوبے کے ايک خوشحال زميندار گھرانے ميں پيدا ہوئے تھے۔ انہوں نے کم عمری ہی ميں غربت کے خلاف جنگ شروع کی تھی اور يہ محسوس کر ليا تھا کہ تعليم معاشرے کے ليے بہت اہم ہے۔ خان عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے۔ خان عبدالغفار خان گاندھیائی طرز زندگی اور ان کے امن پسندی، بقائے باہمی - ہم آہنگی، رواداری اور عدم تشدد کے اصولوں کے زبردست حامی تھے۔

گاندھی جی کے اصول عدم تشدد (اہنسا) اور پرامن باہمی ہم آہنگی نے بھارتیوں کی ایک بڑی تعداد کو عملی زندگی کے فلسفے کی طرف راغب کیا تھا۔ اس میں ان کے پیچھے نہ صرف ہندو بلکہ مسلمان بھی تھے۔ خان عبدالغفار خان بھی انھیں میں سے ایک تھے۔ مہاتما گاندھی جہاں برطانوئی نوآبادیات کے خلاف لڑ رہے تھے وہیں لوگ ایک اور مہاتما کے عروج کو دیکھ رہے تھے۔

خان عبدالغفار خان، جنہیں بادشاہ خان اور بچہ خان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک پشتون آزادی پسند جنگجو اور ایک امن پسند انسان تھے، جن کی عظمت تمام قبائلی اور فرقوں میں پھیل چکی تھی۔ بعد میں انہیں ان کی عملی جدوجہد کے باعث سرحدی گاندھی کے لقب سے نوازا گیا۔

خان عبدالغفار خان کی پرورش پاکستان کے موجودہ صوبے خیبر پختونخوا میں ہوئی۔ یہ جگہ خون ریزی اور جنگی قبائل کے لیے تاریخ میں مشہور رہی ہے۔ عبدالغفار خان مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے اصولوں کے سخت پیروکار تھے۔ عدم تشدد ’اہنسا’ اور سچائی کے لیے لڑی جانے والی لڑائی ’ستیہ گرہ’ کی طرف رغبت کی وجہ سے انہیں فرنٹیئر گاندھی کا لقب دیا گیا۔

گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد اور ستیہ گرہ کی نظریات سے متاثر ہوکر خان عبدالغفار خان نے مکہ میں اپنے حج سے واپسی کے بعد خدائی خدمتگار (خدا کے خادم) تحریک کی بنیاد رکھی۔

خان عبدالغفار خان کی طرف لوگوں کےراغب ہونے کی وجہ ان کی خالص دیانتداری اور عدم تشدد کی راہ پر مکمل عزم اور متحدہ بھارت میں مکمل یقین تھا۔اس تحریک نے ہزاروں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔اور یہ ثابت کیا کہ روایتی مارشل پشتون برادری کو بھی اپنے طریقوں کے طور پر عدم تشدد کے احتجاج کے طور پر انتخاب کر سکتے ہیں۔

عبدالغفار خان نےمہاتما گاندھی سے سنہ 1928 میں پہلی مرتبہ ملاقات کی اور انڈین کانگریس پارٹی سے جڑے۔ اور کچھ ہی وقت میں وہ گاندھی جی کے قریبی پیروکار بن گئے۔ دونوں لیڈروں کی سیاست، مذہب اور ثقافتی امور پر اکثر گھنٹوں بحث ہوتی تھی۔

گاندھی جی خان عبالغفار خان کے خلوص، صاف گوئی اور سادگی سے بہت ماثر تھے۔ گاندھی جی کی رائے تھی کہ وہ ایک حقیقت میں خدائی خدمت گار 'خدا کے غلام' ہیں ۔ وہ زندگی کے تین اہم نظریات سے متاثر تھے مناسب طرز عمل، یقین اور محبت۔

گاندھی اور خان کا ایک ہی نقطہ نظر تھا۔ ایک ایسا ویزن جو تمام چیزوں سے مضبوط تر تھا۔ انہوں نے ایک آزاد، غیر منقسم، سیکولر بھارت کا خواب دیکھا- ایک ایسا بھارت جہاں ہندو اور مسلمان دونوں مل کر امن کے ساتھ رہ سکیں۔

خان عبد الغفار خان کی کہانی نہ صرف ان کی مقبولیت بلکہ ان کے فطری طور پر آسان اور روحانی نقطہ نظر سے سنی سنائی جاتی ہے۔

بادشاہ خان کہتے تھے: "عدم تشدد محبت ہے اور اس سے لوگوں میں ہمت پیدا ہوتی ہے ۔ جب تک عدم تشدد پر عمل نہیں کیا جاتا ہے تب تک دنیا کے عوام پر کوئی بھی امن اور راحت نہیں آسکتا''۔

خان عبدالغفار خان سب سے بڑھکر خدا کے بندے تھے جن کا ماننا تھا کہ لوگوں کی خدمت کرنا ہی خدا کی بندگی ہے۔ اگر کوئی مذہب تنازغات اور نفرت کو ہوا دیتا ہے، لوگوں کو تقسیم کرتا ہے اور انسانیت کے اتحاد کو درہم برہم کرتا ہے تو عبدالغفار خان نے اس کی مذمت کی اور کھل کر کہا کہ وہ سچا مذہب نہیں ہے۔

خان عبدالغفار خان نے یہ بار بار دہرایا کہ عدم تشدد کا تصور قرآن مجید میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہتھیار تھا لیکن تم اس سے آگاہ نہیں ہو ۔ اور یہ ہتھیار ہے صبر اور صداقت کا۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

ہندوستان کی تقسیم کی بات چیت کرنے پر خان عبد الغفار خان نے اُن کی سخت مخالفت کی اورجب انڈین نیشنل کانگریس نے تقسیم ہندوستان کی حامی بھردی اور وہ بھی آپ کو اطلاع دیئے بغیر تو انھیں اس بات کا سخت صدمہ پہنچا اورانھوں نے کانگریس سے کہا کہ ’’آپ نے ہمیں تنہا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

اس کے نتیجے میں 1947 جون میں خان عبدالغفار خان اورخدائی خدمتگار کے رہنماؤں نے یہ مطالبہ کیا کہ انھیں پشتوستان چاہئے، جس میں برٹش انڈیا کے سبھی پشتو لوگ رہ سکے بجائے اس کہ اُن کی برادری کو پاکستان میں شامل کیا جائے۔

روز بروز بگڑتے حالات انھیں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے مگر اُن کا یہ جذبہ مرتے دم تک قائم رہا،اوران کی یہ تحریک آزادی کے لیے بہت بڑی حامی جماعت ثابت ہوئی،جنوبی ایشیاء کی آزادی کے بعد انھیں امن کے لیے ’’ 1962 میں تنظیم برائے بین الاقوامی عفو عام‘‘سے نوازا گیا،اس کے بعد 1962میں ’’جواہر لال نہرو ایوارڈ فار انٹرنیشنل انڈر اسٹانیڈنگ ‘‘دیا گیا اور 1987 میں بھارت سرکار نے انھیں بعداز مرگ بھارت کے سب سے بڑے اعزاز ’’بھارت رتن ایوارڈ سے نوازا۔

یہ بھی پڑھیں:

ABOUT THE AUTHOR

...view details