لکھنؤ: پانچ ستمبر کو پورے ملک میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ان اساتذہ کی خدمات کو یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے تعلیمی میدان میں خصوصی طور پہ جدوجہد کی ہو۔ پرانے لکھنؤ کے وزیر باغ کے رہنے والے ترنم اور وسیم جو آپس میں شوہر اور بیوی ہیں، سو فیصد معذور ہیں۔ اس کے باوجود بھی 70 بچوں کو اپنے ایک ہی کمرے میں کورونا وبا کے بعد سے تعلیم دے رہے ہیں۔ بچوں کو یہ دونوں تعلیم بالکل مفت دے رہے ہیں۔ اس کے لیے کسی بھی قسم کی فیس نہیں لیتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے وسیم نے بتایا کہ کورونا وبا کے بعد ہمارے علاقے میں کئی بچے اسکول جانا بند کر دیے۔ کئی بچوں کے ماں باپ کے پاس فیس دینے کے پیسے نہیں تھے۔ تو کئی بچے دوسری مجبوریوں کی وجہ سے اسکول نہیں جا سکے۔ ان بچوں کو پڑھانے کی ذمہ داری ہم نے لی اور دو بچوں سے اس کی شروعات کی تھی اور آج تقریباً 70 بچوں کی تعداد ہو گئی ہے۔ وسیم بتاتے ہیں کہ تعلیم کے میدان میں کام کرنے سے ہمیں بے حد خوشی ملتی ہے۔ یوم اساتذہ کے موقع پر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ بچوں کو تعلیم دو تاکہ وہ اپنا مستقبل خود بنا سکیں۔
بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ملک کا نام روشن کریں، ہمارا سپنا ہے
وسیم کی بیوی ترنم نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن معذوری کی وجہ سے نہ ہی مجھے اس طرح کے اسکول ملے اور نہ ہی سہولتیں ملیں۔ جس کی وجہ سے میں نے صرف ہائی اسکول تک ہی تعلیم حاصل کی لیکن اب میری خواہش ہے کہ ان بچوں کو تعلیم دے کر کے آگے بڑھائیں تاکہ یہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور ملک کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کر سکیں۔ ترنم بتاتی ہیں کہ ہمارے محلے میں کئی غریب بچے ہیں جو اسکول نہیں جا سکتے ہیں اور نہ ہی فیس ادا کر سکتے ہیں۔ ان بچوں کو ہم بالکل مفت پڑھاتے ہیں۔ ان سے کسی بھی قسم کی فیس نہیں لیتے ہیں۔
تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی
ترنم کہتی ہیں کہ جس طریقے سے ہم نے تعلیم حاصل کرنے میں جدوجہد کی تھی۔ میری کوشش ہے کہ ان بچوں کے ساتھ وہ جدوجہد نہ ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں اسکول جاتی تھی۔ 100 فیصد معذور ہوں۔ میرے بھائی مجھے گود میں لے کر جاتے تھے اور اسکول کے کلاس روم میں چھوڑ کر آ جاتے تھے۔ اس کے بعد پھر وہیں سے مجھے چھٹی کے بعد گود میں اٹھا کے لاتے تھے۔ کیونکہ اس زمانہ میں اسکول میں معذوروں کے لیے ریمپ یا دیگر سہولتیں نہیں تھیں۔ اس وجہ سے جب میں اور بڑی ہو گئی تو مجھے اسکول جانے میں بہت دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، تو آخر تنگ آ کر میں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ ترنم بتاتی ہیں کہ موجودہ دور میں تعلیم کی جو اہمیت اور قدر ہے وہ کسی اور چیز کی نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو تعلیم دے دیں گے تو ان کو آگے جانے میں کسی اور مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی۔