نئی دہلی: لوک سبھا انتخابات کے بعد لوک سبھا اسپیکر کے عہدے کے انتخاب کو لے کر سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ یہ انتخاب آئین کے آرٹیکل 93 کے تحت کرائے جا رہے ہیں۔ ایسے انتخابات کی پیچیدگیوں کو جاننے والوں کا کہنا ہے کہ اس عمل میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگتا ہے۔
لوک سبھا سکریٹریٹ کے سابق سکریٹری جنرل، پی ڈی تھانکپن آچاری نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ اسپیکر کے عہدے کے لیے اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے ووٹنگ ہوتی ہے اور جو شخص کامیاب ہوتا ہے وہی اسپیکر منتخب ہوجاتا ہے۔
- اسپیکر کے انتخاب کا طریقہ کار
پہلا مرحلہ: پی ڈی ٹی آچاری نے کہا کہ روایتی طور پر اسپیکر کا انتخاب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بحث کے بعد اتفاق رائے سے ہوتا ہے کیونکہ وہ ایوان کی پوری کارروائی کی نگرانی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عام طور پر اسپیکر کے عہدے پر تقسیم رائے سے بچنے کو ترجیح دیتی ہیں۔تاہم ماضی میں اس عہدے کے لیے انتخاب ہوتے رہے ہیں اور یہ سال بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
دوسرا مرحلہ: اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بات چیت کے باوجود بھی اتفاق رائے نہ ہو سکے تو اپوزیشن حکومت کے اسپیکر امیدوار کی مخالفت کر سکتی ہے اور اپنا امیدوار بھی تجویز کر سکتی ہے۔ جس کے بعد اسپیکر کے لیے انتخاب ہوتے ہیں۔
تیسرا مرحلہ: لوک سبھا کے سابق سکریٹری جنرل کے مطابق اس بار بھی ایسا ہی منظر سامنے آ رہا ہے۔ کیونکہ دو امیدوار اس عہدے کے لیے نامزد کیے جاچکے ہیں، بی جے پی نے اوم برلا اور کانگریس نے کے سریش کے کاغذات نامزدگی داخل کر چکے ہیں۔ دونوں امیدواروں کی جانب سے تحریک کے نوٹسز بھی جمع کرائے جاچکے ہیں۔ پروٹیم اسپیکر ان تحریکوں کا جائزہ لیں گے، اور پھر انہیں لوک سبھا میں پیش کریں گے۔
چوتھا مرحلہ: پروٹیم اسپیکر لوک سبھا میں پہلی تحریک پر عمل شروع کرے گا۔ تحریک منظور ہونے کے بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہو جائے گا۔ اس عمل میں لوک سبھا کے سکریٹری جنرل کی نگرانی میں ووٹنگ سلپس جاری کرائی جائے گی۔ اگرچہ صوتی ووٹ کافی ہو سکتا ہے لیکن اپوزیشن کے امیدوار کی طاقت کو دیکھتے ہوئے پرچیوں کے ذریعے ووٹنگ کروائی جائے گی۔