شاہی جامع مسجد سنبھل کے سروے دوران حالات کشیدہ (ETV Bharat) سنبھل:اترپردیش کے سنبھل میں شاہی جامع مسجد کا سروے چار دن بعد دوبارہ شروع ہوا تو ہنگامہ برپا ہوگیا۔ سروے کے لیے آنے والی ٹیم کے مسجد میں داخل ہونے کے بعد جمع ہونے والا ہجوم پرتشدد ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں پولیس فورس پر پتھراؤ شروع ہو گیا۔ حالات قابو سے باہر ہوتا دیکھ کر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ اس کے بعد آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔ لیکن ہنگامہ بڑھتا ہی چلا گیا۔
ایڈوکیٹ کمیشن رمیش راگھو، ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین، ایڈوکیٹ گوپال شرما، پرنس شرما، وشنو شرما اتوار کی صبح 7.30 بجے شاہی جامع مسجد کا دوبارہ سروے کرنے پہنچے۔ جامع مسجد کے صدر ظفر علی کے علاوہ مسجد کمیٹی سے وابستہ لوگ بھی ان کے ساتھ تھے۔ ڈی ایم ڈاکٹر راجندر سنگھ پنسیا اور ایس پی کرشنا کمار بشنوئی سمیت بڑی تعداد میں پولیس فورس بھی موقعے پر تعینات تھی۔ ہجوم کو جمع ہونے سے روکنے کے لیے مسجد کی طرف جانے والی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں لیکن یہ اقدامات ناکافی ثابت ہوئے۔
شاہی جامع مسجد سنبھل کے سروے دوران حالات کشیدہ (ETV Bharat) سروے ٹیم کے پہنچتے ہی ماحول کشیدہ ہوگیا اور مقامی لوگ شاہی جامع مسجد کے قریب جمع ہونے لگے۔ سروے شروع ہوتے ہی ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ہزاروں لوگ جمع ہو گئے اور فوراً پتھراؤ شروع کر دیا۔ پتھراؤ کے جواب میں پولیس فورس نے لاٹھی چارج کیا۔ صورت حال پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔ پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام صورت حال پر قابو پانے میں مصروف ہیں۔
یہ ہے پورا معاملہ
19 نومبر کو ہندو فریق نے ضلع عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شاہی جامع مسجد ہری ہر مندر ہے۔ ہندو فریق کے اس دعوے کی بنیاد پر ضلع عدالت نے سروے کا حکم جاری کر دیا۔ اسی روز ایک سروے بھی کیا گیا جس کے بعد سیاسی گھمسان مچ گیا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اس معاملے میں سروے رپورٹ 26 نومبر تک عدالت میں پیش کی جانی ہے، جب کہ اگلی سماعت 29 نومبر کو ہوگی۔ آج جیسے ہی ٹیم سروے کے لیے پہنچی وہاں ہنگامہ کھڑا گیا۔
شاہی جامع مسجد سنبھل کے سروے دوران حالات کشیدہ (ETV Bharat) رکن پارلیمنٹ کے والد سمیت 48 لوگوں کے خلاف کارروائی
ایک دن پہلے سنیچر کو پولیس نے شاہی جامع مسجد کو ہری ہر مندر ہونے کے دعوے کے بیچ سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق کے والد مولانا مملوک الرحمٰن برق کو دس لاکھ روپے کے بانڈ کے ساتھ پابند کیا تھا۔ اس کے علاوہ ضلع کے 46 دیگر لوگوں کو بھی پانچ لاکھ روپے کے مچلکے کا پابند کیا گیا۔ ایس ڈی ایم سنبھل ڈاکٹر وندنا مشرا کے مطابق امن و امان کے پیش نظر 48 لوگوں کے مچلکے بھرے گئے ہیں۔ ان میں سے دو افراد کے خلاف 10 لاکھ روپے کے بانڈز مقرر کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک میں ایس پی ایم پی ضیاء الرحمن برق کے والد مولانا مملوک الرحمن برق اور دوسرے سماج وادی پارٹی کے سابق ضلع صدر فیروز خان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 46 لوگوں کے خلاف 5-5 لاکھ روپے کے مچلکے بھرے گئے ہیں۔
نماز جمعہ کے لیے عوام کا بہت بڑا مجمع
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے ہری ہر مندر ہونے کا دعویٰ 19 نومبر کو سنبھل کے چندوسی کی ضلع عدالت میں پیش کیے جانے کے بعد عدالت نے عدالتی کمیشن بنانے کا حکم دیا اور اسی سروے کا کام شروع ہوا۔ اگرچہ سروے کے دوران بڑی تعداد میں مسلم کمیونٹی کے لوگ جمع ہوگئے تھے لیکن پولیس انتظامیہ اور جامع مسجد کمیٹی سے وابستہ ذمہ داران نے لوگوں کو سمجھا خاموش کرا دیا تھا۔ 22 نومبر بروز جمعہ مسجد میں نماز جمعہ میں تقریباً 3000 افراد نے شرکت کی۔ نماز جمعہ کے موقعے پر کئی تھانوں کی پولیس فورس کے علاوہ PAC اور RRF کو تعینات کیا گیا تھا۔ ادھر آج اتوار کو جب جامع مسجد کا سروے ایک بار پھر شروع ہوا تو ہنگامہ ہوگیا۔
19 نومبر کو بھی ہوا تھا سروے
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کا پہلے ہی 19 نومبر کو سروے ہو چکا ہے۔ 19 نومبر کو ہندو فریق نے سنبھل کے چندوسی کی ضلع عدالت میں مقدمہ دائر کیا۔ یہ مقدمہ صبح 11 بجے ضلع عدالت میں دائر کیا گیا۔ اس معاملے کی سماعت دوپہر ایک بجے ہوئی۔ کورٹ کمشنر کا حکم شام 4 بجے دیا گیا۔ شام 6 بجے کورٹ کمشنر سروے کے لیے شاہی جامع مسجد پہنچے۔ کورٹ کمشنر شام 7.30 بجے کے قریب سروے کرنے کے بعد باہر آئے۔
ہندو فریق کا دعویٰ
ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ شاہی جامع مسجد 'ہری ہر مندر' ہے۔ عدالت میں دائر عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ (شاہی جامع مسجد) پہلے شری ہری ہر مندر تھا۔ بابر نے 1529 میں مسجد تعمیر کی۔ بابر نے ہی مندر کو گرا کر مسجد بنائی۔ مسجد کی تعمیر کے دوران یہاں موجود ہری ہر مندر کو منہدم کر دیا گیا۔ عرضی گزار نے اس کے لیے بابرنامہ اور عین اکبری کو بنیاد بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اے ایس آئی کی تقریباً 150 سال پرانی کتاب کو بھی ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہندو فریق نے شک سنوت کا نقشہ پیش کیا ہے جس کے ہزاروں سال پرانا ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوان کلکی مستقبل میں یہاں اوتار لیں گے۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ مسجد میں مندر کی موجودگی کے بہت سے آثار ہیں۔ اس حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
500 سال پرانی مسجد
محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق سنبھل کی شاہی جامع مسجد تقریباً 500 سال پرانی ہے۔ اس عمارت کو 1920 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت ایک محفوظ عمارت قرار دیا گیا تھا۔ سنبھل کی جامع مسجد کا ذکر بابرنامہ میں ملتا ہے۔ سنبھل جامع مسجد کے ایڈوکیٹ ظفر علی کے مطابق یہ مسجد میر بیگ نے 1529 میں مغل حکمران بابر کے حکم پر بنوائی تھی۔ جامع مسجد ہموار زمین پر بنائی گئی ہے اور مسجد کی تعمیر کے وقت وہاں کوئی مندر یا عمارت نہیں گھی۔ اس کا ثبوت ان کے پاس موجود ہے۔ ہندو فریق کے دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ جامع مسجد کسی مندر کو گرا کر نہیں بنائی گئی۔