شملہ:قومی اور بین الاقوامی سطح پر جب بھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات پر بات ہوتی ہے تو سب کی توجہ شملہ معاہدے کی طرف ضرور جاتی ہے۔ 1971 میں بھارت نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو جون 1972 میں اپنی بیٹی بے نظیر بھٹو کے ساتھ شملہ آئے تاکہ تقریباً 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں سمیت دیگر مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ اس وقت شملہ میں دنیا بھر سے میڈیا کے لوگ جمع تھے۔
شملہ معاہدے کے حوالے سے طرح طرح کی رپورٹنگ چل رہی تھی لیکن اس سے بھی زیادہ چرچے بے نظیر بھٹو کے بارے میں تھے جو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ بھارت آئی تھیں۔ بے نظیر کی عمر اس وقت محظ 19 سال تھی اور وہ ہارورد ہونیورسٹی میں زیرِتعلیم تھیں۔
بے نظیر بھٹو کی والدہ نصرت بھٹو اپنے شوہر کے ساتھ بھارت آیا جایا کرتی تھیں لیکن بیماری کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو اپنی بیٹی کو ساتھ لےکر بھارت آئے۔
بیٹی کو بھارت میں پاکستان کا سفیر بنانے کا مشورہ دیا گیا:
شملہ میں قیام کے دوران بے نظیر بھٹو نے یہاں کی آب و ہوا کا خوب لطف اٹھایا اور یہاں مال روڈ کا دورہ کیا اور کافی شاپنگ کی۔ میڈیا والے بھی ان کی حرکت و سکانات پر نظر رکھے ہوئے تھے، ان میڈیا ذمہ داران کو شملہ معاہدے سے زیادہ بے نظیر بھٹو میں دلچسپی تھی۔ بے نظیر کا اتنا چرچا ہوا کہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو بھی کسی نے مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیٹی کو بھارت میں پاکستان کا سفیر بنا دیں، ان باتوں کے گواہ اس وقت کے شملہ کے میڈیا والے تو تھے ہی ساتھ ہی بے نظیر نے بھی اپنی سوانح عمری ’دا ڈاٹر آف ایسٹ‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔
بے نظیر اور ان کا لباس میڈیا کی سرخیوں میں رہا:
بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو پریشان تھے کہ کوئی باعزت معاہدہ ہو جائے اور وہ اپنے لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل ہو جائیں اور پاکستان واپس چلے جائیں۔ دوسری جانب بے نظیر اور ان کی تنظیم بین الاقوامی اور قومی میڈیا کی سرخیوں میں رہی۔ بے نظیر نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ میں جب بھی ہماچل بھون (راج بھون) سے آتی اور جاتی تھی، لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہو جاتا تھا۔ میں جب بھی مال روڈ پر سیر کے لیے نکلتی تو لوگوں کا ہجوم نظر آتا تھا۔ صحافیوں اور فیچر رائٹرز نے مجھے گھیر لیا تھا۔ میرے انٹرویوز ہوئے۔ مجھے آل انڈیا ریڈیو پر گفتگو کے لیے مدعو کیا گیا۔ میں پریشان تھی کہ میرے کپڑے قومی فیشن کا معاملہ بن گئے ہیں۔ میں اپنے آپ کو ہارورڈ کی ایک روشن خیال لڑکی سمجھتی تھی، جس کا ذہن دنیا کے بڑے جنگ اور امن کے مسائل سے نبرد آزما تھا، لیکن میڈیا مجھ سے بار بار کپڑوں کے بارے میں پوچھتا رہا جس کی وجہ سے مجھے عجیب سا لگ رہا تھا کیونکہ جس مقصد کے تحت ہم لوگ بھارت آئے تھے ان مدعوں پر فوکس نہ کرکے ہماری پوشاک پر زیادہ توجہ دی جا رہی تھی۔
جب بھٹو بغیر کسی معاہدے کے واپس جانے کو تیار تھے: