اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

بنبھول پورہ تشدد فرقہ وارانہ نہیں تھا، ہندو مسلم بھائی چارہ آج بھی برقرار - بنبھول پورہ تشدد

Haldwani violence ہلدوانی میں تشدد کے بعد بھی بنبھول پورہ میں ہندو مسلم یکجہتی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ تشدد سے متاثرہ علاقے مسلم اکثریتی علاقے ہیں۔ اس علاقے میں کئی ہندو خاندان بھی رہتے ہیں۔ تشدد کے واقعے کے بعد بھی یہاں رہنے والے خاندان آپس میں مل جل کر رہ رہے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں نے کہا کہ بنبھول پورہ تشدد فرقہ وارانہ نہیں تھا۔ یہ صرف ایک واقعے پر لوگوں کا غصہ تھا۔

Etv Bharat
Etv Bharat

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 22, 2024, 12:01 PM IST

ہلدوانی: بنبھول پورہ تشدد کو مذہبی اختلافات کا نتیجہ بتایا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کے باغیچہ سے شروع ہونے والا تشدد کبھی فرقہ وارانہ تھا ہی نہیں، یہ غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کی مہم سے شروع ہوا تھا۔ تشدد کے باوجود ہندو مسلم تعلقات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ یہ درست ہے کہ سیاسی طور پر تشدد کے نام پر اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی، لیکن ای ٹی وی بھارت کی گراؤنڈ رپورٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اس تشدد کا ہندو مسلم یکجہتی اور بھائی چارہ پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔

  • بنبھول پورہ، ہندو اور مسلم بھائی چارہ کا مرکز:

ہلدوانی کے کاٹھ گودام سے تھوڑے ہی فاصلے پر بنبھول پورہ کا علاقہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کا مرکز رہا ہے۔ اس علاقے میں دونوں برادریوں کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ یہاں کی تاریخ میں کسی بڑے تشدد کی مثال نہیں ملتی۔ خاص بات یہ ہے کہ بنبھول پورہ تشدد کا بھی ان رشتوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ تشدد کے دوران اپنے پیاروں کو کھونے والے خاندان بھی اس پورے واقعے کو فرقہ وارانہ انداز میں نہیں دیکھتے۔

پولیس جے سی بی کے ساتھ ملک کے باغیچہ علاقے میں داخل ہوئی اور میونسپل کارپوریشن کے ملازمین اور افسران بنا تیاری کے ساتھ یہاں پہنچے۔ یہ واقعہ کے حالات سے واضح ہے۔ ابتدا میں اس واقعہ کو تجاوزات ہٹانے آئی انتظامیہ کی ٹیم اور ایک خاص برادری کے لوگوں کے خلاف غصے کے طور پر دیکھا گیا لیکن اس کے بعد آتشزدگی اور کرفیو کی صورتحال کے درمیان اس پورے واقعہ کو فرقہ وارانہ سمجھا جانے لگا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ایک مخصوص کمیونٹی نے علاقے میں مختلف اداروں اور مکانات کو نشانہ بنایا اور پتھراؤ اور آگ زنی کی۔

  • کارروائی کے ردعمل سے کشیدگی بڑھی:

75 سالہ ممتاز، جو گزشتہ دہائیوں سے بنبھول پورہ میں مقیم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ، بنبھول پورہ میں تشدد کبھی فرقہ وارانہ نہیں تھا، یہ صرف تجاوزات کے حوالے سے لوگوں کا غصہ تھا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ آگ کس نے لگائی۔ انتظامیہ کی ٹیم کی جانب سے تجاوزات ہٹانے کے لیے کی جانے والی اچانک کارروائی پر لوگ ناراض ہوگئے۔ اس کے بعد پولیس کی طرف سے پتھراؤ کیا گیا اور لوگوں کی طرف سے ردعمل بھی سامنے آیا۔ اس پورے واقعے کا ہندو مسلم تعلقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کل بھی دونوں برادریوں کے لوگ مل جل کر رہتے تھے اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے، آج بھی اس واقعہ کے حوالے سے ہندوؤں کی طرف سے کسی قسم کی شکایت نہیں ہے۔

  • ہندو اور مسلم خاندانوں کے درمیان کئی دہائیوں کا رشتہ:

اسی علاقے میں رہنے والا گڈو بھی ممتاز کی باتوں کو دہراتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ہندو اور مسلم خاندانوں کے درمیان دہائیوں پرانے رشتے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ بہت سے نیپالی خاندان بھی آس پاس رہتے ہیں لیکن کبھی کسی کے درمیان کوئی دراڑ نہیں آئی۔ اس علاقے کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ باہر سے آکر ایسی وارداتیں انجام دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

ملک کے باغیچہ میں جہاں یہ پورا واقعہ پیش آیا وہاں رہنے والے بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بہت سے ہندو خاندان رہتے ہیں، ہر کوئی ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری دکان اس کے سامنے ہے۔ ہم سب کو بھی ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اس جگہ پر کبھی ہندو مسلم کشیدگی نہیں ہوئی۔

  • گھروں کی چھتوں پر زعفرانی جھنڈوں کی موجودگی:

ان گھروں پر لگے جھنڈے اس علاقے کے لوگوں کی باہمی ہم آہنگی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ پورا علاقہ مسلم اکثریتی ہے لیکن اس علاقے میں رہنے والے کچھ ہندو خاندانوں کی چھتوں پر زعفرانی جھنڈے آسانی سے نظر آتے ہیں۔ مجموعی طور پر مقامی لوگوں کے ذہنوں میں کسی قسم کی کھٹائی یا باہمی تناؤ نظر نہیں آتا۔ یہ بات طے ہے کہ اس واقعہ کے بعد کچھ لوگ انتظامیہ سے ناراض ہیں۔ ان کے الفاظ اور بیانات سے واضح ہے کہ اس واقعہ کا فرقہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں ہندو مسلم بھائی چارہ پہلے کی طرح آج بھی قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ABOUT THE AUTHOR

...view details