ETV Bharat / sukhibhava

Infant Mortality Rate in India: بھارت میں بچوں کی صحت اور شرحِ اموات کی تازہ صورتحال

گذشتہ برسوں میں بچوں کی اموات کی شرح (IMR) میں اضافہ ایک سنجیدہ مسئلہ بن رہا ہے۔ اگرچہ بھارت میں بچوں کی اموات کی شرح میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں گراوٹ آئی ہے لیکن کچھ ریاستوں میں یہ شرح اب بھی زیادہ ہے۔ پینار انڈسٹریز کے ڈائریکٹر پی وی راؤ نے اس موضوع پر اپنی رائے دی اور اس شرح کو کم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔

author img

By

Published : Jun 18, 2022, 5:33 PM IST

بھارت میں بچوں کی اموات کی شرح کی کیا صورتحال ہے؟
بھارت میں بچوں کی اموات کی شرح کی کیا صورتحال ہے؟

انڈیا نیشنل سروے کے تازہ ترین صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 اور 2021 کے درمیان پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں ایک سال سے کم عمر کے 35 بچوں کی موت واقع ہوئی جو کہ سال 2015 سے 2016 کے درمیان ہر 1000 بچوں میں 41 بچوں کی اموات سے 15 فیصد کم ہے۔ بھارت میں نوزائیدہ اموات کی شرح (NMR) سال 2015 سے 2016 کے درمیان تقریبا 30 اموات ہوئی تھی، اب سال 2019 سے 2021 کے درمیان یہ اموات 25 رہ گئی ہے۔اگر ہم ریاستوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ بہتری سکم میں دیکھی گئی ہے جب کہ سب سے زیادہ اضافہ تریپورہ میں ہوا ہے۔

بچوں کی شرح اموات (IMR) کو مکمل طور پر طبی عوامل سے منسوب نہیں کیا جاسکتا جس میں ہیلتھ کیئر سروز، صحت کا بنیادی ڈھانچہ، قبل از پیدائش/حمل کی دیکھ بھال، زچگی کی صحت، بعد از پیدائش کی دیکھ بھال، حفاظتی ٹیکوں، اور مجموعی احتیاطی صحت کا نظام شامل ہے، لیکن اس کے علاوہ غذائیت اور صفائی ستھرائی جیسے دیگر سماجی مسائل بھی ذمہ دار ہیں۔

اگرچہ بھارت میں اوسط بچوں کی شرح اموات (یعنی جن بچوں کی موت ایک سال کی عمر ہونے سے پہلے ہوجاتی ہے) میں گراوٹ آئی ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ ریاستوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ہے، جن ریاستوں میں نوزائیدہ، نومولود اور ایک سال کی عمر کے بچوں کے شرح اموات میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ ان میں سکم، پڈوچیری، کیرالہ اور گوا شامل ہیں۔

ہندوستان میں ہر سال ایک اندازے کے مطابق 26 ملین بچے پیدا ہوتے ہیں۔سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق بچے (0-6)ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں۔ نیشنل ہیلتھ مشن (NHM) کے تحت بچوں کی صحت کا پروگرام جامع طور پر شروع کیا گیا ہے جو بچوں کی بقا کو بہتر بنانے کے ساتھ ان عوامل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نومولود اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس کے بعد اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اس مسئلے کو صرف ایک مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کا تعلق ماں کی صحت سے ہے۔

نیشنل ہیلتھ مشن کے علاوہ حکومت ہند نے ملک میں زچہ اور بچہ دونوں کی اموات کی شرح کو کم کرنے کے مقصد سے مختلف نئی اسکیمیں متعارف کروائی ہیں۔ یہ ہندوستان کی آئندہ نسل کو صحتمند منانے لیے ضروری ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ دیکھ بھال کا تسلسل برقرار رہے، اور خاص طور پر جن علاقوں میں یہ اسکیمیں کام نہیں کر رہی ہیں وہاں زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان پروگراموں کے مثبت نتائج سامنے آسکیں۔

بھارت میں ہر سال 25 ملین بچوں کی پیدائش ہوتی ہے جو کہ پوری دنیا میں ہونے والے بچوں کی پیدائش کا پانچواں حصہ ہے۔ ہر منٹ ان میں سے ایک بچہ کی موت بھی واقع ہوتی ہے۔ تقریبا 46 فیصد ماؤں کی اموات اور 40 فیصد نومولود بچوں کی اموات لیبر کے دوران ہوتی ہے یا تو پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر واقع ہوتی ہے۔

بہتر ڈاکٹر اور ہنر مند طبی عملے کی مدد سے اس مسئلے کو بڑی حد تک روکا جاسکتا ہے۔ نوزائیدہ کی پیدائش کے فورا بعد انہیں خسرہ اور دیگر بیماریوں کے خلاف لڑنے والے حفاظتی ٹیکے ملنے کے ساتھ انہیں ماں کا دودہ وقت پر دیا جائے تو بچوں کے زندہ رہنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔

ہندوستان میں تقریباً 3.5 ملین بچے کی قبل از وقت پیدائش ہوجاتی ہے، 1.7 ملین بچے پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور 10 لاکھ نوزائیدہ بچوں کو ہر سال خصوصی نوزائیدہ کیئر یونٹس (SNCUs) میں زیرنگرانی رکھا جاتا ہے۔ ان بچوں کو موت، غذائیت کی کمی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

بھارت نے نوزائیدہ اموات میں کمی میں پیش رفت کی ہے۔ جس سے عالمی سطح پر نوزائیدہ اموات کا بوجھ بھی کم ہوا ہے۔بھارت 1990 میں نوزائیدہ اموات کے ایک تہائی سے کم ہو کر آج نوزائیدہ اموات کے ایک چوتھائی سے نیچے آ گیا ہے۔ سال 2000 کے مقابلے 2017 میں ہندوستان میں ہر ماہ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں تقریباً 10 لاکھ کی کم اور ماؤں کی اموات میں دس ہزار کی کمی ہوئی ہے اور یہ سب خواتین کو مہیا ہونے والی صحت کی سہولیات کی وجہ سے ممکن ہوسکتا ہے۔ صرف ایک دہائی قبل دس میں سے چھ خواتین بغیر ماہرین کے مدد کے گھر میں بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ لیکن اب اس اعداد و شمار میں کمی آئی ہے اور اب دس میں سے آٹھ خواتین طبی ماہرین کی نگرانی میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔

ہم اس بات سے واقف ہیں کہ بہت سے معاملات میں نوزائیدہ لڑکیوں کو مناسب طبی دیکھ بھال کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے، خاص طور پر بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اتر پردیش کی ریاستوں میں ایسا ہوتا ہے۔ مفت سروس کی دستیابی کے باوجود ایس این سی یویز میں آدھے سے بھی کم (41 فیصد) لڑکیوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ سال 2019 میں ایک لاکھ 90 ہزار نوزائیدہ لڑکیوں کو پورے ہندوستان میں 849 سے زیادہ ایس این سی یویز میں داخل کیا گیا۔ اگرچہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ نوزائیدہ لڑکیاں حیاتیاتی طور پر زیادہ مضبوط ہیں، لیکن وہ بڑے پیمانے پر نوزائیدہ لڑکوں کو زیادہ ترجیحات ملنے کی وجہ سے سماجی طور پر کمزور رہتی ہیں، جس کی وجہ سے نوزائیدہ بچیوں کی موت زیادہ ہوتی ہے۔ بھارت دنیا کا واحد بڑا ملک ہے جہاں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کی اموات میں صنفی فرق 3 فیصد ہے۔

دنیا بھر میں بچوں کی اموات کی شرح کو کم کرنے کے لیے صحت کے ماہرین، حکومتوں، اور غیر سرکاری تنظیموں نے صحت کے بہتر نتائج لانے کے لیے ادارے، پروگرام اور پالیسیاں بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ موجودہ کوششیں انسانی وسائل کی ترقی، صحت کی معلومات کے نظام کو مضبوط بنانے، صحت کی خدمات کی فراہمی وغیرہ پر مرکوز ہیں۔ ایسے شعبوں میں بہتری کا مقصد علاقائی صحت کے نظام کو بڑھانا اور شرح اموات کو کم کرنے کی کوششوں میں مدد کرنا ہے۔

انڈیا نیشنل سروے کے تازہ ترین صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2019 اور 2021 کے درمیان پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں ایک سال سے کم عمر کے 35 بچوں کی موت واقع ہوئی جو کہ سال 2015 سے 2016 کے درمیان ہر 1000 بچوں میں 41 بچوں کی اموات سے 15 فیصد کم ہے۔ بھارت میں نوزائیدہ اموات کی شرح (NMR) سال 2015 سے 2016 کے درمیان تقریبا 30 اموات ہوئی تھی، اب سال 2019 سے 2021 کے درمیان یہ اموات 25 رہ گئی ہے۔اگر ہم ریاستوں کی بات کریں تو سب سے زیادہ بہتری سکم میں دیکھی گئی ہے جب کہ سب سے زیادہ اضافہ تریپورہ میں ہوا ہے۔

بچوں کی شرح اموات (IMR) کو مکمل طور پر طبی عوامل سے منسوب نہیں کیا جاسکتا جس میں ہیلتھ کیئر سروز، صحت کا بنیادی ڈھانچہ، قبل از پیدائش/حمل کی دیکھ بھال، زچگی کی صحت، بعد از پیدائش کی دیکھ بھال، حفاظتی ٹیکوں، اور مجموعی احتیاطی صحت کا نظام شامل ہے، لیکن اس کے علاوہ غذائیت اور صفائی ستھرائی جیسے دیگر سماجی مسائل بھی ذمہ دار ہیں۔

اگرچہ بھارت میں اوسط بچوں کی شرح اموات (یعنی جن بچوں کی موت ایک سال کی عمر ہونے سے پہلے ہوجاتی ہے) میں گراوٹ آئی ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ ریاستوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ہے، جن ریاستوں میں نوزائیدہ، نومولود اور ایک سال کی عمر کے بچوں کے شرح اموات میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ ان میں سکم، پڈوچیری، کیرالہ اور گوا شامل ہیں۔

ہندوستان میں ہر سال ایک اندازے کے مطابق 26 ملین بچے پیدا ہوتے ہیں۔سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق بچے (0-6)ملک کی کل آبادی کا 13 فیصد ہیں۔ نیشنل ہیلتھ مشن (NHM) کے تحت بچوں کی صحت کا پروگرام جامع طور پر شروع کیا گیا ہے جو بچوں کی بقا کو بہتر بنانے کے ساتھ ان عوامل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو نومولود اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جس کے بعد اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اس مسئلے کو صرف ایک مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کا تعلق ماں کی صحت سے ہے۔

نیشنل ہیلتھ مشن کے علاوہ حکومت ہند نے ملک میں زچہ اور بچہ دونوں کی اموات کی شرح کو کم کرنے کے مقصد سے مختلف نئی اسکیمیں متعارف کروائی ہیں۔ یہ ہندوستان کی آئندہ نسل کو صحتمند منانے لیے ضروری ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ دیکھ بھال کا تسلسل برقرار رہے، اور خاص طور پر جن علاقوں میں یہ اسکیمیں کام نہیں کر رہی ہیں وہاں زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان پروگراموں کے مثبت نتائج سامنے آسکیں۔

بھارت میں ہر سال 25 ملین بچوں کی پیدائش ہوتی ہے جو کہ پوری دنیا میں ہونے والے بچوں کی پیدائش کا پانچواں حصہ ہے۔ ہر منٹ ان میں سے ایک بچہ کی موت بھی واقع ہوتی ہے۔ تقریبا 46 فیصد ماؤں کی اموات اور 40 فیصد نومولود بچوں کی اموات لیبر کے دوران ہوتی ہے یا تو پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر واقع ہوتی ہے۔

بہتر ڈاکٹر اور ہنر مند طبی عملے کی مدد سے اس مسئلے کو بڑی حد تک روکا جاسکتا ہے۔ نوزائیدہ کی پیدائش کے فورا بعد انہیں خسرہ اور دیگر بیماریوں کے خلاف لڑنے والے حفاظتی ٹیکے ملنے کے ساتھ انہیں ماں کا دودہ وقت پر دیا جائے تو بچوں کے زندہ رہنے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔

ہندوستان میں تقریباً 3.5 ملین بچے کی قبل از وقت پیدائش ہوجاتی ہے، 1.7 ملین بچے پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور 10 لاکھ نوزائیدہ بچوں کو ہر سال خصوصی نوزائیدہ کیئر یونٹس (SNCUs) میں زیرنگرانی رکھا جاتا ہے۔ ان بچوں کو موت، غذائیت کی کمی کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

بھارت نے نوزائیدہ اموات میں کمی میں پیش رفت کی ہے۔ جس سے عالمی سطح پر نوزائیدہ اموات کا بوجھ بھی کم ہوا ہے۔بھارت 1990 میں نوزائیدہ اموات کے ایک تہائی سے کم ہو کر آج نوزائیدہ اموات کے ایک چوتھائی سے نیچے آ گیا ہے۔ سال 2000 کے مقابلے 2017 میں ہندوستان میں ہر ماہ نوزائیدہ بچوں کی اموات میں تقریباً 10 لاکھ کی کم اور ماؤں کی اموات میں دس ہزار کی کمی ہوئی ہے اور یہ سب خواتین کو مہیا ہونے والی صحت کی سہولیات کی وجہ سے ممکن ہوسکتا ہے۔ صرف ایک دہائی قبل دس میں سے چھ خواتین بغیر ماہرین کے مدد کے گھر میں بچوں کو جنم دیتی تھیں۔ لیکن اب اس اعداد و شمار میں کمی آئی ہے اور اب دس میں سے آٹھ خواتین طبی ماہرین کی نگرانی میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔

ہم اس بات سے واقف ہیں کہ بہت سے معاملات میں نوزائیدہ لڑکیوں کو مناسب طبی دیکھ بھال کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے، خاص طور پر بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اتر پردیش کی ریاستوں میں ایسا ہوتا ہے۔ مفت سروس کی دستیابی کے باوجود ایس این سی یویز میں آدھے سے بھی کم (41 فیصد) لڑکیوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ سال 2019 میں ایک لاکھ 90 ہزار نوزائیدہ لڑکیوں کو پورے ہندوستان میں 849 سے زیادہ ایس این سی یویز میں داخل کیا گیا۔ اگرچہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ نوزائیدہ لڑکیاں حیاتیاتی طور پر زیادہ مضبوط ہیں، لیکن وہ بڑے پیمانے پر نوزائیدہ لڑکوں کو زیادہ ترجیحات ملنے کی وجہ سے سماجی طور پر کمزور رہتی ہیں، جس کی وجہ سے نوزائیدہ بچیوں کی موت زیادہ ہوتی ہے۔ بھارت دنیا کا واحد بڑا ملک ہے جہاں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ 5 سال سے کم عمر کی اموات میں صنفی فرق 3 فیصد ہے۔

دنیا بھر میں بچوں کی اموات کی شرح کو کم کرنے کے لیے صحت کے ماہرین، حکومتوں، اور غیر سرکاری تنظیموں نے صحت کے بہتر نتائج لانے کے لیے ادارے، پروگرام اور پالیسیاں بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ موجودہ کوششیں انسانی وسائل کی ترقی، صحت کی معلومات کے نظام کو مضبوط بنانے، صحت کی خدمات کی فراہمی وغیرہ پر مرکوز ہیں۔ ایسے شعبوں میں بہتری کا مقصد علاقائی صحت کے نظام کو بڑھانا اور شرح اموات کو کم کرنے کی کوششوں میں مدد کرنا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.