عالمی ادارہ صحت کے مطابق موتیا بند( کٹاریکٹ) اور کالا موتیا( گلوکوما) جیسی بیماریوں کے بعد کورنیا کی بیماریاں آنکھوں کی کمزوری اور اندھے پن کا باعث بنتی ہیں۔ دنیا کی تقریبا 5 فیصد آبادی صرف قرنیہ کی بیماریوں کی وجہ سے نابینا ہے۔ ایسے میں موت کے بعد آنکھوں کا عطیہ کرنا کسی شخص کی زندگی میں نئی امنگ بھر سکتا ہے۔
ہر سال 25 اگست سے 8 ستمبر تک دو ہفتوں کے لیے آنکھوں کا عطیہ کا قومی دن منایا جاتا ہے۔ یہ ایک مہم ہے جس کا مقصد آنکھوں کے عطیہ کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے کہ وہ مرنے کے بعد اپنی آنکھیں عطیہ کرنے کا عہد کریں۔
اس کا افتتاح پہلی بار صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت نے سنہ 1985 میں کیا تھا۔ اس موضوع کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے کیونکہ بھارت میں تقریبا 30 لاکھ لوگوں، جن میں 12 سال سے کم عمر کے بچوں کی اکثریت شامل ہے، کو ایک عطیہ کے ذریعہ اپنی بینائی واپس مل سکتی ہے۔
کون عطیہ کرسکتا ہے؟
- ہر عمر، جنس، نسل، بلڈ گروپ یا مذہب کے لوگ عطیہ کرسکتے ہیں۔
- وہ لوگ جو قریب اور بعید نظری کے لیے عینک یا لینس کا استعمال کرتے ہیں یا وہ لوگ جنہوں نے اپنی آنکھوں کا آپریشن کروایا ہے، وہ بھی عطیہ کرسکتے ہیں۔
- وہ لوگ جو ذیابیطیس، ہائی بلڈ پریشر، دمہ سے متاثر ہیں ایسے مریض بھی عطیہ کرسکتے ہیں۔
کون اپنی آنکھیں عطیہ نہیں کرسکتا؟
وہ لوگ جو ایڈز، ہیپاٹائٹس بی یا سی، ریبیز، کولیرا، ٹیٹنس، ایکیوٹ لیوکیمیا، سیپٹیسیمیا، میننجائٹس(دماغی بخار)، یا انسیفلائٹس سے متاثر ہیں یا ان بیماریوں کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی ہے تو ایسی حالت میں وہ اپنی آنکھیوں کا عطیہ نہیں کرسکتے ہیں۔
آنکھوں کے عطیہ کے حوالے سے ضروری جانکاری
یہاں کچھ چیزیں ہیں جو آپ کو معلوم ہونی چاہئیں، جیسا کہ بھارت کے نیشنل ہیلتھ پورٹل (NHP) نے بتایا ہے۔
- آنکھوں کا عطیہ موت کے بعد کرنا ہے۔ ( یعنی زندہ شخص کی آنکھوں کو زندہ رہتے ہوئے عطیہ کے لیے نکالا نہیں جاسکتا)
- صرف کورنیل بلائنڈز لوگ ہی ان عطیہ شدہ آنکھوں سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
- ہر عمر، جنس اور بلڈ گروپ کا شخص اپنی آنکھوں کا عطیہ کرسکتا ہے۔
- موت کے ایک گھنٹے کے اندر کورنیا کو ہٹادینا چاہیے۔
- ایک شخص کی عطیہ کی ہوئی آنکھیں دو کورنیل نابینا افراد کو روشنی دے سکتی ہیں۔
- آنکھوں کو ہٹانے میں صرف 10 سے 15 منٹ کا وقت لگتا ہے اور اس سے چہرے پر کوئی داغ دھبے نہیں پڑتے ہیں۔
- عطیہ کی گئی آنکھوں کو کبھی خریدا یا فروخت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
- رجسٹرڈ آئی ڈونر بننے کے لیے آپ آئی بینک سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
مزید پڑھیں:کالا موتیا کی بڑھتی بیماری، علامات اور علاج
آنکھوں کے عطیہ کے حوالے سے غلط فہمیاں اور حقیقت
آنکھوں کے عطیہ کرنے سے متعلق کئی افواہیں سننے کو ملتی ہیں، لیکن ہم سب کو اس سے متعلق حقائق سے آگاہ رہنا چاہیے۔ ایک انسان کی آنکھوں سے دو کورنیل بلائنڈ لوگوں کی بینائی واپس کی جاسکتی ہے۔ یہاں کچھ افواہیں جو ہمیں اکثر سننے کوملتی ہیں:
- میری نظر کمزور ہے، اس لیے میں اپنی آنکھیں عطیہ نہیں کرسکتا: خوش قسمتی سے کمزور بینائی کبھی بھی آنکھوں کے عطیہ کرنے کے عمل میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ وہ لوگ جو قریب یا بعید نظری کے لیے عینک یا لینس لگاتے ہیں وہ بھی اپنی آنکھیں عطیہ کرسکتے ہیں، یہاں تک کہ جنہوں نے اپنی آنکھوں کا آپریشن کروایا ہے وہ بھی اپنی آنکھیں عطیہ کرسکتے ہیں۔ اس میں کسی بھی عمر، بلڈ گروپ اور جنس وغیرہ کے لوگ شامل ہیں۔
- دوسری غلط فہمی یہ سننے کو ملتی ہے کہ میں اپنے اگلے جنم میں اندھا پیدا ہوں گا۔ تو یہ بات درست نہیں ہے، یہ مکمل طور پر توہم پرستی جیسی باتیں ہیں۔ آنکھوں یا کسی دوسرے اعضاء کا عطیہ کرنا ایک نیک کام ہے۔
- آنکھوں کا عطیہ میرے چہرے کو بدنما کردے گا جیسی افواہیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔ عام طور پر صرف کورنیا کو ہٹادیا جاتا ہے نہ کہ پوری آنکھ کو۔ بعض صورتوں میں اسی کی جگہ مصنوعی آنکھیں لگادی جاتی ہیں۔