خواتین کے ساتھ کام کی جگہ پر استحصال کو ایک عام بات سمجھا جا سکتا ہے۔ کام کی جگہ پر بدسلوکی کئی طرح کی ہو سکتی ہے جیسے کہ زبانی بدسلوکی یعنی فحش یا جنس پر مبنی تبصرے، تذلیل یا جنسی زیادتی، لیکن استحصال کسی بھی میڈیم میں ہو، اس کا اثر استحصال زدہ عورت کی ذہنی صحت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے تو کہیں اس کی جسمانی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کام کی جگہ پر طویل عرصے تک جنسی طور پر ہراساں کرنا متاثرہ شخص میں ہائی بلڈ پریشر سمیت دیگر امراض کا باعث بھی بن سکتا ہے Women Sexually Harassed on the Job۔
جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ ایسی خواتین میں نسبتاً زیادہ ہوتا ہے جنہیں کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی خواتین میں ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ ہارٹ اٹیک کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے Journal of the American Heart Association۔
اس طویل مدتی تحقیق میں 40 سے 60 سال کی عمر کی 33 ہزار کام کرنے والی خواتین کو شامل کیا گیا جنہیں 2008 تک ہائی بلڈ پریشر جیسا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
تحقیق کے پہلے مرحلے میں حصہ لینے والی خواتین سے ان کے تناؤ کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ تحقیق کے دوسرے مرحلے میں سات سال کے بعد سال 2015 میں حصہ لینے والی خواتین کی صحت کی رپورٹس کا دوبارہ جائزہ لیا گیا اور ان سے کام کی جگہ پر ہونے والے تناؤ اور استحصال سے متعلق دیگر مسائل پر بھی معلومات لی گئیں۔ جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ہائی بلڈ پریشر اور بلڈ پریشر کے کیسز ہر پانچویں خاتون میں پائے گئے۔ ان میں سے تقریباً 20 فیصد خواتین میں ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ دیکھا گیا۔ بہت سی متاثرہ خواتین نے بھی کام کی جگہ پر کسی نہ کسی طرح کے استحصال کی تصدیق کی۔
تحقیق کے نتائج میں، ہارورڈ، بوسٹن میں چان سکول آف پبلک ہیلتھ کی وبائی امراض کی محقق ریبیکا لان نے کہا کہ تحقیق میں شامل اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ میں ہر سال 44 فیصد خواتین دفتر میں ہراساں کیے جانے کی شکایت کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ 80 فیصد خواتین کو کام کی جگہ پر کسی نہ کسی طرح کے استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن خواتین کو دونوں قسم کے بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ 21 فیصد تک بڑھ گیا۔ ایک ہی وقت میں، جن خواتین کو کام کی جگہ پر صرف جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ان میں ہائی بلڈ پریشر ہونے کا خطرہ 15 فیصد اور ذہنی تشدد کی دیگر اقسام کا سامنا کرنے والی خواتین میں 11 فیصد تک دیکھا گیا۔
اس کے علاوہ ایسی خواتین میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات دیکھی گئیں جو کسی نہ کسی وقت جنسی ہراسانی کا شکار ہوئیں۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ہائی بلڈ پریشر سے متعلق بیماریوں سے ہونے والی خواتین کی ایک تہائی اموات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
صرف امریکہ میں ہی نہیں، پوری دنیا میں خواتین کو نہ صرف کام کی جگہوں بلکہ اسکول، کالج، تقریبات اور یہاں تک کہ گھر میں بھی جسمانی یا دیگر قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کے بارے میں بات کریں تو 2015-16 میں کیے گئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں 15 سے 49 سال کی عمر کی تقریباً 30 فیصد خواتین کو 15 سال کی عمر سے ہی جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 15-49 سال کی عمر کی 6 فیصد خواتین کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک بار جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ زیادہ تر خواتین اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کی اطلاع دینے سے کتراتی ہیں، حتیٰ کہ لوگوں کو اس کے بارے میں بتانے سے بھی گریز کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں:
عورت کی جسمانی اور ذہنی نشوونما پر جسمانی اور ذہنی زیادتی کے اثرات کے بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر رینوکا شرما کا کہنا ہے کہ تشدد چاہے وہ میڈیم ہی کیوں نہ ہو، عورت کی ذہنی صحت پر بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ جسمانی اور ذہنی استحصال کا شکار خواتین، خاص طور پر جسمانی جنسی استحصال، ذہنی مسائل یا حالات جیسے صدمے، تناؤ، ڈپریشن، اضطراب، غصہ، خوف، نیند کی کمی اور خود اعتمادی میں کمی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ جس سے ان کی جسمانی صحت براہ راست متاثر ہوتی ہے اور ان میں کئی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔