ETV Bharat / sukhibhava

Animal to Human Transplant: کیا مستقبل میں جانوروں کے اعضا کی انسانی جسم میں پیوندکاری ممکن ہوپائے گی؟

کوچی کے امریتا ہسپتال کے گیسٹرو انٹیسٹائنل سرجری کے شعبہ کے پروفیسر ڈاکٹر سُدھیندرن ایس نے بتایا کہ 'تاہم ابھی تک کسی نے بھی جانوروں سے انسان میں ٹرانسپلانٹ میں کوئی ایسی پیش رفت نہیں کی ہے، جس کا اثر لمبے وقت تک رہے۔ 'ہمیں اگلے 30 سے 40 برسوں میں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے کے امکان نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ اس عمل میں ایسی صورتحال کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایک جانور کا عضو انسانی جسم کے لیے قابل قبول ہوجاتا ہے۔ اگر جسم اس عضو کو قبول نہیں کرتا ہے تو اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یقینی طور پر طویل مدتی کامیابی کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ Animal to Human Transplant

author img

By

Published : Mar 11, 2022, 3:18 PM IST

کیا مستقبل میں جانوروں کے اعضاء کی پیوندکاری انسانی جسم میں ممکن ہوپائے گی
کیا مستقبل میں جانوروں کے اعضاء کی پیوندکاری انسانی جسم میں ممکن ہوپائے گی

دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر کسی جانور کے اعضاء کی پیوندکاری ایک مریض میں کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جنیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کے دل کی پیوندکاری کے کامیاب آپریشن کے دو ماہ بعد اس شخص کی موت نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا ہے اور لوگ یہ جاننے کے لیے متجسس ہیں کہ کیا مستقبل میں اس طرح کی پیوند کاری ممکن ہے؟ جب ماہرین سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو ماہرین کی ملی جلی رائے سامنے آئی۔ آئیے جانتے ہیں ماہرین کیا کہتے ہیں۔ Can Animal to Human Transplantation Turn Successful

ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں جانوروں کے اعضاء کو انسانی جسم میں کامیابی کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کرنے کے امکان نہیں ہیں، لیکن اگلے 30 سے 40 برسوں میں یہ ممکن ہوسکتا ہے۔

جانوروں کے اعضاء کو انسانوں میں لگانے کے 17 ویں صدی پرانی تکنیک کو زینوٹرانسپلانٹیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پہلے اس تکنیک کے ذریعہ جانوروں کے خون کو دوسروں میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انسانوں کے اعضاء کی کمی کو دیکھتے ہوئے سائنسدانوں نے بندروں، چیمپینزیوں اور ببون بندر یہاں تک کے خنزیر جیسے غیر انسانی جانداروں کا استعمال کرنا شروع کیا۔ اس تجربے کے لیے خنزیر کو منتخب کیا گیا کیونکہ ان کے اعضاء کا سائز انسانی اعضاء کے قریب ہوتا ہے۔ What is Xenotransplantation

کوچی کے امریتا ہسپتال کے گیسٹرو انٹیسٹائنل سرجری کے شعبہ کے پروفیسر ڈاکٹر سُدھیندرن ایس نے بتایا کہ ' تاہم ابھی تک کسی نے بھی جانوروں سے انسان میں ٹرانسپلانٹ میں کوئی ایسی پیش رفت نہیں کی ہے، جس کا اثر لمبے وقت تک رہے۔ 'ہمیں اگلے 30 سے 40 برسوں میں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے کے امکان نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ اس عمل میں ایسی صورتحال کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایک جانور کا عضو انسانی جسم کے لیے قابل قبول ہوجاتا ہے۔ اگر جسم اس عضو کو قبول نہیں کرتا ہے تو اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یقینی طور پر طویل مدتی کامیابی کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔

تاہم گروگرام کے فورٹس ہسپتال کے ڈائریکٹر اور سربراہ ڈاکٹر ادگیتھ دھیر ڈاکٹر سدھیندرن کی بات سے اتقاق نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق زینو ٹرانسپلانٹیشن کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ جانوروں کے اعضاء کو انسانی جسم کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ بنایا جائے گا۔ "مستقبل میں ہمیں یقین ہے کہ ہم زینو ٹرانسپلانٹیشن کے عمل کو اپنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ جہاں ہم مدافعتی نظام کو ترمیم کریں گے یا مدافعتی نظام کو اس طرح متوازن کردیں گے کہ انسانی جسم ان اعضا کو قبول کرلے گی نہ کہ انہیں مسترد کرے گی'۔

انہوں نے بتایا کہ ' اس شعبہ میں ترقی ہورہی ہے۔ ہم جینیاتی طور پر ان خلیوں کو کیپ کر رہے ہیں یا ماسک کر رہے ہیں جو ان اعضاء کے فوری یا دیر سے مسترد ہونے کا سبب بنتے ہیں اور نئی سیلولر ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم ڈی این اے میں ترمیم کر سکتے ہیں جس سے وہ ہمارے جسم کا ایک حصہ بن سکتے ہیں۔ مستقبل میں یقیناً بہت زیادہ کامیاب نتائج سامنے آئیں گے'۔

واضح رہے کہ رواں برس کے جنوری ماہ میں میڈیکل شعبہ میں ایک تاریخ رقم کرنے والے کارنامے کو انجام دیا گیا تھا، جہاں امریکی ڈاکٹر ایک جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کے دل کی پیوندکاری یا ٹرانسپلانٹ 57 مریض ڈیوڈ بینیٹ کے جسم میں کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سرجری کے بعد ٹرانسپلانٹ شدہ دل کئی ہفتوں تک بغیر کسی پیچیدگیوں کے اچھے سے کام کیا۔ مریض اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور جسمانی تھراپی میں حصہ لینے کے قابل تھا تاکہ وہ دوبارہ طاقت حاصل کر سکے۔ لیکن دو ماہ بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔

مزید پڑھیں: Pig Heart Transplanted into Human: پہلی بار انسانی جسم میں خنزیر کے دل کی کامیاب پیوندکاری

اگرچہ یہ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ کیا بینیٹ کی موت کی وجہ اس کے جسم کا خنزیر کے اعضاء کو قبول نہیں کرنا تھا یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ تھی۔ لیکن زینو ٹرانسپلانٹیشن کے طریقہ کار میں شامل محققین نے کہا ہے کہ ابتداء میں سامنے آئے مثبت نتائج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کامیابی طویل مدت تک رہے گی۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ اس عمل میں سب سے بڑا چیلنج امیونولوجیکل رکاوٹیں ہیں جو انسانی مدافعتی نظام کے ذریعے خنزیر کے اعضاء کو مسترد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ابھی تک کئی حالیہ زینو ٹرانسپلانٹیشن میں صرف خنزیر کے اعضاء کو ہی شامل کیا گیا ہے۔ امریکہ کے شہر برمنگھم میں یونیورسٹی آف الاباما کے محققین نے دماغی طور پر مردہ شخص میں کامیابی کے ساتھ خنزیر کے گردہ کا ٹرانسپلانٹ کیا تھا۔ اس شخص کے جسم نے گردے کو مسترد نہیں کیا اور وہ گردہ پیشاب خارج کرنے کے بھی قابل تھا۔

ستمبر 2021 میں،امریکن جرنل آف ٹرانسپلانٹیشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایک خنزیر کے دو گردوں کو جینیاتی طور پر ترمیم شدہ کرنے کے بعد دماغی طور پر مردہ مریض میں لگایا گیا تھا، اکتوبر میں دوبارہ این وائی یو لینگون ہیلتھ میں ڈاکٹروں نے اسی طرح کے طبی کارنامے کو انجام دیا تھا۔

لیکن اس عمل کے لیے صرف خنزیر کے اعضاء ہی کیوں منتخب کیے گئے؟

منیپال ہسپتال کے آرگن ڈونیشن اینڈ ٹرانسپلانٹ کے ہیڈ ڈاکٹر اونیش سیٹھ نے بتایا کہ 'خنزیر کا ماڈل پچھلی دو دہائیوں سے تحقیق کا مرکز رہا ہے کیونکہ یہ انسانی جسم سے مماثلت رکھتے ہیں۔ سائز کے اعتبار سے انسانوں کے لیے سور کے اعضا ایک بہترین متبادل ہیں۔ Why Pig Organs Picked for Xenotransplantation

ممبئی کے اپولو ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ اینڈ ایچ پی بی سرجری اور کنسلٹنٹ ڈاکٹر وکرم راوت نے مزید بتایا کہ "خنزیروں کو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی جینیاتی ترتیب کو انسانوں کے ساتھ آسانی سے ملایا جا سکتا ہے۔ ان کے اعضاء کا سائز جسمانی طور پر انسان کے جیسا ہے اور کراس انفیکشن کے خطرات کم ہیں۔ جانوروں کے اعضاء کو انسانوں کے لیے استعمال کرنے کے اخلاقی پہلوؤں نے بھی بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔

پیٹا انڈیا کی سائنس پالیسی ایڈوائز ڈاکٹر انکیتا پانڈے نے بتایا کہ 'انسانی اعضا کے عطیات میں قلت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہمیں زیادہ بیداری کی ضرورت ہے، زیادہ جانوروں کی نہیں'۔ پانڈے نے کہا کہ ' جانوروں کے اعضاء کو انسانوں میں پیوندکاری صرف سنسنی خیز سرخیاں بنانے کے لیے کی جاتی ہے اور یہ خطرے سے بھری چیز ہے'۔

دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر کسی جانور کے اعضاء کی پیوندکاری ایک مریض میں کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جنیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کے دل کی پیوندکاری کے کامیاب آپریشن کے دو ماہ بعد اس شخص کی موت نے کئی طرح کے سوالات کو جنم دیا ہے اور لوگ یہ جاننے کے لیے متجسس ہیں کہ کیا مستقبل میں اس طرح کی پیوند کاری ممکن ہے؟ جب ماہرین سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو ماہرین کی ملی جلی رائے سامنے آئی۔ آئیے جانتے ہیں ماہرین کیا کہتے ہیں۔ Can Animal to Human Transplantation Turn Successful

ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں جانوروں کے اعضاء کو انسانی جسم میں کامیابی کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کرنے کے امکان نہیں ہیں، لیکن اگلے 30 سے 40 برسوں میں یہ ممکن ہوسکتا ہے۔

جانوروں کے اعضاء کو انسانوں میں لگانے کے 17 ویں صدی پرانی تکنیک کو زینوٹرانسپلانٹیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پہلے اس تکنیک کے ذریعہ جانوروں کے خون کو دوسروں میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انسانوں کے اعضاء کی کمی کو دیکھتے ہوئے سائنسدانوں نے بندروں، چیمپینزیوں اور ببون بندر یہاں تک کے خنزیر جیسے غیر انسانی جانداروں کا استعمال کرنا شروع کیا۔ اس تجربے کے لیے خنزیر کو منتخب کیا گیا کیونکہ ان کے اعضاء کا سائز انسانی اعضاء کے قریب ہوتا ہے۔ What is Xenotransplantation

کوچی کے امریتا ہسپتال کے گیسٹرو انٹیسٹائنل سرجری کے شعبہ کے پروفیسر ڈاکٹر سُدھیندرن ایس نے بتایا کہ ' تاہم ابھی تک کسی نے بھی جانوروں سے انسان میں ٹرانسپلانٹ میں کوئی ایسی پیش رفت نہیں کی ہے، جس کا اثر لمبے وقت تک رہے۔ 'ہمیں اگلے 30 سے 40 برسوں میں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے کے امکان نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ اس عمل میں ایسی صورتحال کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایک جانور کا عضو انسانی جسم کے لیے قابل قبول ہوجاتا ہے۔ اگر جسم اس عضو کو قبول نہیں کرتا ہے تو اس عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یقینی طور پر طویل مدتی کامیابی کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔

تاہم گروگرام کے فورٹس ہسپتال کے ڈائریکٹر اور سربراہ ڈاکٹر ادگیتھ دھیر ڈاکٹر سدھیندرن کی بات سے اتقاق نہیں رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق زینو ٹرانسپلانٹیشن کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ جانوروں کے اعضاء کو انسانی جسم کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ بنایا جائے گا۔ "مستقبل میں ہمیں یقین ہے کہ ہم زینو ٹرانسپلانٹیشن کے عمل کو اپنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ جہاں ہم مدافعتی نظام کو ترمیم کریں گے یا مدافعتی نظام کو اس طرح متوازن کردیں گے کہ انسانی جسم ان اعضا کو قبول کرلے گی نہ کہ انہیں مسترد کرے گی'۔

انہوں نے بتایا کہ ' اس شعبہ میں ترقی ہورہی ہے۔ ہم جینیاتی طور پر ان خلیوں کو کیپ کر رہے ہیں یا ماسک کر رہے ہیں جو ان اعضاء کے فوری یا دیر سے مسترد ہونے کا سبب بنتے ہیں اور نئی سیلولر ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم ڈی این اے میں ترمیم کر سکتے ہیں جس سے وہ ہمارے جسم کا ایک حصہ بن سکتے ہیں۔ مستقبل میں یقیناً بہت زیادہ کامیاب نتائج سامنے آئیں گے'۔

واضح رہے کہ رواں برس کے جنوری ماہ میں میڈیکل شعبہ میں ایک تاریخ رقم کرنے والے کارنامے کو انجام دیا گیا تھا، جہاں امریکی ڈاکٹر ایک جینیاتی طور پر ترمیم شدہ خنزیر کے دل کی پیوندکاری یا ٹرانسپلانٹ 57 مریض ڈیوڈ بینیٹ کے جسم میں کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ سرجری کے بعد ٹرانسپلانٹ شدہ دل کئی ہفتوں تک بغیر کسی پیچیدگیوں کے اچھے سے کام کیا۔ مریض اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور جسمانی تھراپی میں حصہ لینے کے قابل تھا تاکہ وہ دوبارہ طاقت حاصل کر سکے۔ لیکن دو ماہ بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔

مزید پڑھیں: Pig Heart Transplanted into Human: پہلی بار انسانی جسم میں خنزیر کے دل کی کامیاب پیوندکاری

اگرچہ یہ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ کیا بینیٹ کی موت کی وجہ اس کے جسم کا خنزیر کے اعضاء کو قبول نہیں کرنا تھا یا اس کے پیچھے کوئی اور وجہ تھی۔ لیکن زینو ٹرانسپلانٹیشن کے طریقہ کار میں شامل محققین نے کہا ہے کہ ابتداء میں سامنے آئے مثبت نتائج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کامیابی طویل مدت تک رہے گی۔

ڈاکٹروں نے کہا کہ اس عمل میں سب سے بڑا چیلنج امیونولوجیکل رکاوٹیں ہیں جو انسانی مدافعتی نظام کے ذریعے خنزیر کے اعضاء کو مسترد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ابھی تک کئی حالیہ زینو ٹرانسپلانٹیشن میں صرف خنزیر کے اعضاء کو ہی شامل کیا گیا ہے۔ امریکہ کے شہر برمنگھم میں یونیورسٹی آف الاباما کے محققین نے دماغی طور پر مردہ شخص میں کامیابی کے ساتھ خنزیر کے گردہ کا ٹرانسپلانٹ کیا تھا۔ اس شخص کے جسم نے گردے کو مسترد نہیں کیا اور وہ گردہ پیشاب خارج کرنے کے بھی قابل تھا۔

ستمبر 2021 میں،امریکن جرنل آف ٹرانسپلانٹیشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ایک خنزیر کے دو گردوں کو جینیاتی طور پر ترمیم شدہ کرنے کے بعد دماغی طور پر مردہ مریض میں لگایا گیا تھا، اکتوبر میں دوبارہ این وائی یو لینگون ہیلتھ میں ڈاکٹروں نے اسی طرح کے طبی کارنامے کو انجام دیا تھا۔

لیکن اس عمل کے لیے صرف خنزیر کے اعضاء ہی کیوں منتخب کیے گئے؟

منیپال ہسپتال کے آرگن ڈونیشن اینڈ ٹرانسپلانٹ کے ہیڈ ڈاکٹر اونیش سیٹھ نے بتایا کہ 'خنزیر کا ماڈل پچھلی دو دہائیوں سے تحقیق کا مرکز رہا ہے کیونکہ یہ انسانی جسم سے مماثلت رکھتے ہیں۔ سائز کے اعتبار سے انسانوں کے لیے سور کے اعضا ایک بہترین متبادل ہیں۔ Why Pig Organs Picked for Xenotransplantation

ممبئی کے اپولو ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ اینڈ ایچ پی بی سرجری اور کنسلٹنٹ ڈاکٹر وکرم راوت نے مزید بتایا کہ "خنزیروں کو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ان کی جینیاتی ترتیب کو انسانوں کے ساتھ آسانی سے ملایا جا سکتا ہے۔ ان کے اعضاء کا سائز جسمانی طور پر انسان کے جیسا ہے اور کراس انفیکشن کے خطرات کم ہیں۔ جانوروں کے اعضاء کو انسانوں کے لیے استعمال کرنے کے اخلاقی پہلوؤں نے بھی بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔

پیٹا انڈیا کی سائنس پالیسی ایڈوائز ڈاکٹر انکیتا پانڈے نے بتایا کہ 'انسانی اعضا کے عطیات میں قلت کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ہمیں زیادہ بیداری کی ضرورت ہے، زیادہ جانوروں کی نہیں'۔ پانڈے نے کہا کہ ' جانوروں کے اعضاء کو انسانوں میں پیوندکاری صرف سنسنی خیز سرخیاں بنانے کے لیے کی جاتی ہے اور یہ خطرے سے بھری چیز ہے'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.