مغربی بنگال کے دارلحکومت کولکاتا میں دس ہزار خواتین این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی جس میں مغربی بنگال کے مختلف اضلاع سے خواتین نے شرکت کی۔
ریلی کولکاتا کے حاجی محمد محسن اسکوائر سے دھرمتلہ میں گاندھی مجشمہ تک کی گئی جہاں ایک احتجاجی جلسہ بھی کیا گیا۔ ریلی کی قیادت کلی طور پر خواتین نے کی جس میں جماعت اسلامی شعبہ خواتین کے علاوہ دوسری تنظیموں کی خواتین بھی شامل تھیں۔
اس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خواتین ارکان بھی شامل ہوئیں جماعت اسلامی کی گرلز اسلامک آرگنائزیشن کی طالبات بھی بڑی تعداد میں موجود تھی کئی خواتین اس ریلی میں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی آئیں ہوئی تھی ۔
اس موقع جی آئی او کی ریاستی صدر پرمیتا پروین نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ اب خواتین کو سڑکوں پر اترنا ہی پڑے گا اب اگر ہم سڑکوں پر نہیں اترے تو ہمارے آنے والی نسلوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم عورتیں مرکزی حکومت کی مذہبی منافرت پر مبنی قانون کے خلاف سڑکوں پر اتریں ہیں مرکزی حکومت ہم سے ہماری شہریت چھیننا چاہتی ہے موجودہ حکومت ملک کے عوام پر ایک سیاہ قانون مسلط کرنا چاہتی ہے۔
اس کے نتیجے میں عوام کو ایک بار قطار میں کھڑا ہونا پڑے گا آدھار کارڈ ووٹر کارڈ کے چکروں میں لڑنا ہوگا جبکہ ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ کوئی ان سے سوال نہ کریں لیکن ہم اس حکومت اور اس کے سیاہ قانون کے خلاف اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔
ریلی کے بعد دھرمتلہ میں گاندھی مجشمہ کے پاس ہوئے جلسے سے امام عید ین قاری فضل الرحمن نے بھی خطاب کیا اور خواتین کی اس جرات مندانہ اقدام کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ جب جب دنیا میں اس طرح کے حالات پیدا ہوئے ہیں تو خواتین نے اہم رول ادا کیاہے آج ہندوستان میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس میں خواتین جس طرح لڑائی کرنے رہی ہیں وہ قابل تحسین ہے۔