کولکاتا: بنگال میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ یہاں کی 80 اردو میڈیم سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچے ذہین ہونے کے باوجود مالی پریشانیوں کی وجہ سے تعلیمی سفر مکمل کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس طرح کے بچوں کی مدد کرنے کے لئے کولکاتا کی ایک تنظیم 'رہنمائے نسواں' گزشتہ 20 برسوں سے اس سلسلے میں کام کر رہی ہے۔ خاص طور پر یہ تنظیم پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول میں ایسے کمزور بچوں کی مدد کرتی ہے۔
تبسم صدیقہ اور ڈاکٹر شہریار سلیم کی قیادت میں یہ تنظیم اردو میڈیم اسکولوں میں کئی طرح کے ورکشاپ کے ذریعے ان بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو ابھارنے اور ان کے خواب کو پورے کرنے میں اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ Rehnuma e Niswan Helping Poor Student to Complete their Education
آج کے اس جدید دور میں بھی مالی بدحالی کی وجہ سے بچوں کو اپنی تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ بچوں کو پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی مالی بدحالی کا سامنا ہوتا ہے۔ اردو میڈیم کے بچوں کو اس طرح کے مشکلات کا زیادہ سامنا ہے۔
مالی طور پر کمزور ہونے کے علاوہ ان بچوں میں دوسرے میڈیم کے بچوں کی طرح دوسرے فنون سے بھی واقفیت نہیں ہوتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کے پاس اپنی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے کوئی نظم نہیں ہے، جس سے وہ دوسرے بچوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔
ایسے میں کولکاتا کی ایک سماجی تنظیم 'رہنمائے نسواں' کولکاتا و اطراف کے اردو میڈیم اسکولوں میں مختلف طرح کے ورکشاپ اور سرگرمیوں کا اہتمام کرکے بچوں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو باہر لانے کا کام گزشتہ 20 برسوں سے کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنطیم ایسے بچوں کی حصول تعلیم میں مدد کرتی ہے جن کو مالی دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے۔ Rehnuma e Niswan Provide Financial Support to Poor Children
رہنمائے نسواں کے ماتحت کشف نام سے ہر سال ریاست کے مختلف اسکولوں میں ورکشاپ ہوتا ہے۔ جس میں مختلف طرح کی سرگرمیاں جیسے مصوری، پوسٹر میکنگ، بین لسانی پروگرام، بحث و مباحثہ اور پبلک اسپیکنگ، ڈرامہ داستان خوانی وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کیرئیر کونسلنگ اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی داخلہ سے لیکر ان کی کورس فی ادا کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔
تنظیم کی سربراہ تبسم صدیقہ نے ای ٹی وی بھارت سے ایک خصوصی گفتگو کے دوران کہا کہ ہم لوگ گزشتہ 20 سے 23 برسوں سے تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں اور ہمارا مقصد ہے پسماندہ طبقے کے بچوں کو ان کے حصول تعلیم میں مدد کرنا یا ان کو ایک پلیٹ فارم دینا ۔ ایک طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ انہیں ایک خواب دینا۔ جو ذہین بچے ہوتے ہیں اور میڈیکل یا انجنیئرنگ کے امتحانات پاس کرتے ہیں لیکن داخلے یا کورس فی کے لئے ان کو دشواری ہوتی ہے ایسے بچوں کی مالی مدد کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں ہم نے نیٹ کے امتحان میں کامیاب ہونے والے بچے کو ایم بی بی ایس میں داخلے میں مدد کی۔ ایک بچی کو پیرامیڈیکل کورس میں داخلے کے لئے مالی مدد کی گئی۔ فی الحال ایسے دس بچے ہیں جو ایم بی بی ایس اور انجنیئرنگ اور دوسرے پروفیشنل کورس کر رہے ہیں، ان کی ہم مالی مدد کر رہے ہیں۔ ہم زیادہ تر سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں پر توجہ دیتے ہیں کیونکہ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچے پسماندہ طبقے سے تعلقات رکھتے ہیں۔
رہنمائے نسواں کے سرگرم رکن ڈاکٹر شہریار سلیم نے بتایا کہ ہم پورے سال ریاست کے اردو میڈیم اسکولوں میں جاکر کئی طرح کی تعلیمی سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور صلاحیت مند بچوں کو ان میں سے ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان بچوں کے بھی بڑے خواب ہوتے ہیں لیکن مالی دشواریوں کی وجہ سے یا اعتماد کی کمی وجہ سے وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ہم ایسے بچوں کو حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ان کے خواب پورے کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: Urdu Medium School:مغربی بنگال کے اردو میڈیم اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی