کولکاتا شہر میں مسلمانوں کی گھنی آبادی والے علاوے میں موجود ایک ملی الامین کالج کا اقلیتی کردار موضوع بحث بنی ہوئی ہوئی ہے۔ کیونکہ کالج کو اقلیتی درجہ برسوں کی جدوجہد کے بعد حاصل ہوا تھا لیکن 2015 میں ریاستی حکومت نے کالج کے اقلیتی کردار کو ختم کر دیا تھا ۔
کالج کو بایاں محاذ کے دور میں 2008 میں اقلیتی کردار حاصل ہوا تھا لیکن کالج کے اساتذہ کے جھگڑے کے سبب کالج کی آرگنائزنگ کمیٹی کے اس وقت کے صدر سلطان احمد نے اقلیتی ادارہ کے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے تین اساتذہ جس میں موجود ٹیچر انچارج بیشاکھی بنرجی ،زرینہ زریں اور پروین کور کو معطل کر دیا تھا۔ اس کے بعد تینوں اساتذہ نے کالج کے اقلیتی کردار کو کلکتہ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ۔
عدالت نے ریاستی حکومت سے کالج کے اقلیتی کردار پر حلف نامہ داخل کرنے کو کہا ریاستی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں کالج کو اقلیتی کردار نہ ہونے کی بات کہی جس کے بعد عدالت نے اساتذہ کی معطلی کو غیر قانونی قرار دیا ۔ ریاستی حکومت 20 جنوری 2015 کو کالج کے اقلیتی کردار کو ختم کر دیا ۔ْ
اس کے بعد سے کالج کی آرگنائزنگ کمیٹی کالج کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے جو جدو جہد کر رہی ہے جبکہ کالج کو نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹیٹوشن سے منظوری حاصل ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی اس سلسلے میں یہ رائے دی تھی کہ اقلیتوں کو اپنی تعلیمی ادارے قائم کرنے کی آزادی دستور میں حاصل ہے اور نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹیٹوشن کے ذریعے دیئے گئے اقلیتی درجے کو بھی جائز قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود ریاستی حکومت ملی الامین کالج کا اقلیتی کردار بحال کرنے میں سست روی سے کام لے رہی ہے گزشتہ 27 دسمبر 2019 کو ریاستی حکومت کے جوائنٹ سیکریٹری کی جانب سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا جس کا میمو نمبر 385-L/OM-97L/2018 تھا میں کہا ہے کہ کالج کے اقلیتی کردار کو حاصل کرنے کی لئے موجودہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس سلسلے میں کام کریگی حکومت نے خود ہی ایک گورننگ باڈی تشکیل دی ہے۔ کسی بھی اقلیتی ادارے کے اصولوں کے خلاف ہے جو اقلیتی اداروں کو آئین دفع 30 کے تحت حقوق حاصل ہیں اس کے خلاف ہے ۔
حکومت کی اس نوٹیفیکیشن پر کالج کی آرگنائزنگ کمیٹی کے علاوہ ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی نے بھی سوالات اٹھائیں ہیں ۔ ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی کے اہم رکن ڈاکڑ فواد حلیم نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ریاستی حکومت نے ملی الامین کالج کے اقلیتی کردار کے سلسلے میں جو تازہ نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے ۔
اس سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ کالج کو اقلیتی درجہ حاصل نہیں ہے جبکہ کئی بار کالج کی آرگنائزنگ کمیٹی کی طرف سے ایسا دعوی کیا جا چکا ہے۔ اس پر واہ واہی بھی لی جا چکی ہے جبکہ حکومت نے واضح کر دیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں اس کے برعکس حکومت نے خود ایک اقلیتی ادارے کے لئے گورننگ باڈی تشکیل دی ہے جو کہ آئین کے دفعہ (1)30 کے منافی ہے جس میں لسانی و مذہبی اقلیتوں کو اپنی مرضی سے ادارے قائم کرنے اور چلانے کی آزادی حاصل ہے۔
وہیں دوسری جانب کالج کے آرگنائزنگ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ضیاء الدین حیدر کا کہنا ہے کہ ہم اس،کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے حقوق کی پامالی ہے اور جو کمیٹی حکومت کی طرف سے تشکیل دی گئی ہے۔ اس،میں کالج کی ٹیچر انچارج خو بے جا اختیارات حاصل ہے ان کو گورننگ باڈی کے لئے کئی ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ ان ان عہدوں کے لئے انتخاب ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہم جوائنٹ سیکریٹری سے ملاقات کرنے گئے تھے لیکن ہماری ملاقات نہیں ہو پائی ہے ہم دوبارہ اس،سلسلے میں ان سے ملنے کی کوشش کریں گے اور اپنے مطالبات رکھیں گے۔وہیں ملی الامین کالج بچاؤ کمیٹی کی جانب سے فوری طور پر اس نوٹیفیکیشن کو واپس لینے اور کالج کے اقلیتی کردار کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔