مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون لانے کے بعد سے ہی پورے ملک میں این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج شروع ہو گئے تھے۔ اس درمیان اتر پردیش کے بھی متعدد شہروں میں بھی شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج و مظاہرے ہوئے۔
اس درمیان یوپی پولس کی گولی سے اتر پردیش کے مختلف شہروں میں متعدد افراد کی موت ہوئی ان میں بنگال کے ضلع جنوبی 24 پرگنہ کے بجائے بج بج کے مایا پور 1نمبر بلاک کا باشندہ 27سالہ شیخ سراج بھی شامل تھا جو میرٹ میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں شامل ہوا تھا۔
آج اس کی لاش اس کے گاؤں مایا پور لائی گئی اور آج ہی اس تجہیز و تدفین کی گئی اس کے جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی وہیں اس واقعہ کے بعد گاؤں میں گم و غصے کی لہر پائی جا رہی ہے۔
شیخ سراجل 12سال تک میرٹ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرٹ میں ہی گزشتہ تین برسوں سے ایک غیر سرکاری مدرسے میں معلم کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جب میرٹ میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے احتجاج و مظاہرے شروع ہوئے تو وہ بھی ان میں شامل تھا۔
اس کے میں گردن میں گولی لگی ہے اس کے علاوہ جسم کے مختلف حصوں پر چوٹ کے نشان پائے گئے ہیں۔اس واقعہ پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جماعت اسلامی حلقہ مغربی بنگال کے امیر مولانا محمد رفیق الدین نے کہا کہ اتر پردیش کی حکومت اور اس کی پولس نے ریاست میں نسل کشی جیسا ماحول بنا رکھا ہے یہ ریاستی حکومت کی دہشت گردی ہے۔ میرٹ میں احتجاج کے دوران بنگال کے ایک نوجوان شیخ سراجل کو شہید کر دیا گیا ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔
جماعت اسلامی کا وفد کل اس کے اہل خانہ سے ملے تھے اور ان کے اہل خانہ کی قانونی مدد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے ساتھ ہم اتر پردیش کے حکومت اور مغربی بنگال کی بھی حکومت سے مہلوک کے اہل خانہ کو کم سے کم ایک کروڑ روپئے کا معاوضہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔
اس کے ساتھ ہیں انہوں کہا کہ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس شہادت کے خلاف اپنی صدائے احتجاج بلند کریں اور اس میں اتنی شدت لائیں کہ حکومت کو این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینا پڑے۔