ETV Bharat / state

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی - مسلمانوں کے کئی تاریخی مسلم ادارے ہیں جنہیں مسلمانوں نے قوم کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کیا تھا

دو سو سال قبل دارلحکومت کولکاتا سے چالیس کیلومیٹر دور ضلع ہگلی کے چنسورہ میں معروف شخصیت اور تعلیم دوست حاجی محمد محسن نے ہگلی مدرسہ قائم کیا تھا جس کا ماضی بہت شاندار رہا ہے

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی
دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی
author img

By

Published : Dec 30, 2019, 8:47 PM IST

مغربی بنگال میں مسلمانوں کے کئی تاریخی مسلم ادارے ہیں جنہیں مسلمانوں نے قوم کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کیا تھا۔ ان میں سے کئی ادارے بے توجہی کا شکار ہوکر ختم ہو گئی تو کئی حکومتوں کی بے توجہی اور مسلمانوں کے عدم دلچسپی کے سبب بربادی کے دہانے پر ہیں۔

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی

ایسا ہی ایک تعلیمی ادارہ آج سے دو سو سال قبل دارلحکومت کولکاتا سے چالیس کیلومیٹر دور ضلع ہگلی کے چنسورہ میں معروف شخصیت اور تعلیم دوست حاجی محمد محسن نے ہگلی مدرسہ قائم کیا تھا. اس کا ماضی بہت شاندار رہا ہے اور اس مدرسے سے کئی عظیم شخصیات نے تعلیم حاصل کی لیکن مسلمانوں کا یہ تعلیمی آج مسلمانوں کی عدم دلچسپی اور حکومت کی عدم توجہی کے سبب بربادی کے دہانے پر ہے۔

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی
دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی

ہگلی مدرسہ کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد ناصر مزید کہا کہ یہ مدرسہ میں شروع میں شہ لسانی تعلیم دی جاتی تھی لیکن اور سائنس اور تاریخ و جغرافی کی تعلیم کے لئے ہر زبان اساتذہ موجود تھے لیکن جب بنگال میں بایاں محاذ کی حکومت قائم ہوئی تو پرانے اساتذہ کے سبکدوش ہونے کے بعد اردو اور عربی شعبہ میں نئے اساتذہ کی تقرری نہیں ہوئی ۔

جبکہ بنگلہ کے شعبے اساتذہ کی وافر تعداد موجود رہی جس کے نتیجے میں اردو اور عربی میڈیم کے طالب علموں کو مجبورا اردو اور عربی کے علاوہ جدید سائنس کی تعلیم کے لئے بنگلہ زبان پر اکتفا کرنا پڑتا تھا ۔

اس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ مدرسے میں طلباء کی تعداد کم ہوتی گئی اتنی کم ہوگئی کہ ایک وقت ایسا بھی جب طلباء سے زیادہ اساتذہ کی تعداد ہوگئی چونکہ ہگلی مدرسہ مغربی بنگال حکومت کے ماتحت تھا۔

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی
دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی

پی ایس سی نے اساتذہ دوسرے سرکاری اسکولوں میں منتقل کر دیا جب 2011 میں ممتا بنرجی کی حکومت آئی تو اس حکومت نے بھی مدرس۔مدرسہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ مسلمانوں کو ہگلی مدرسہ کے نام پر سبز باغ دکھا گیا ۔

مغربی بنگال مدرسہ بورڈ نے ہگلی مدرسہ کو اپنی تحویل میں لیکر انگریزی میڈیم اسکول قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی اس اور کئی برسوں سے مدرسہ بند ہے گرچہ انگریزی میڈیم اسکول کے نام پر ایک نئی عمارت تعمیر ہو چکی ہے لیکن ہگلی مدرسہ کا کیا ہوگا اس سلسلے میں کسی کے پاس جواب نہیں گرچہ کئی بار ہگلی مدرسہ کی بازیابی اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لئے تحریک بھی ہوتی رہی ہیں لیکن کچھ مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے اور ایک تاریخی تعلیمی ادارہ اپنی قسمت پر رونے پر مجبور ہے۔

مغربی بنگال کے ضلع ہگلی میں حاجی محمد محسن آج سے دو سو سال قبل مسلمانوں کی پسماندگی کے سبب تلاش کر رہے اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو لیکر فکر مند تھے ۔ انہوں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی ساری دولت کو مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لئے وقف کردیا۔

انہوں نے اپنی زندگی میں ہی دو تعلیمی اداروں کی بنیاد ڈالی جن میں سے ایک ہگلی محسن کالج آج بھی پوری اب و تاب کے ساتھ قائم ہے لیکن 1817 میں حاجی محمد محسن کی قائم کردہ ہگلی مدرسہ اپنی زبوں حالیہ پر ماتم کر رہا ہے ۔

اس مدرسے کا ماضی بہت شاندار رہا ہے اور کئی عظیم شخصیات نے یہاں تعلیم حاصل کی تھی یہاں پو بنگلہ ،عربی ،اردو کے علاوہ جدید تعلیم کا بھی نظم تھا۔ ہندو مسلم دونوں اس ادارے سے اپنی تعلیمی پیاس بجھانے رہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جب ملک میں سیاسی تبدیلی ہوتی رہی ۔

مدرسے کو مسلمانوں کا ادارہ ہونے کی سزا بھگتنی پڑی اور رفتہ رفتہ اس ادارے کی عظمت تاریخ کا حصہ بن گئی۔ سب سے زیادہ اس ادارے کو بایاں محاذ کی 34 سالہ اقتدار کے دوران نقصان پہنچا اور بالآخر ہگلی مدرسہ کی بند ہونے کی نوبت آ گئی۔

اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت بھارت نے ہگلی مدرسہ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا۔ ہگلی مدرسہ کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد ناصر سے بات چیت کی ایک خاص بات چیت کے دوران انہوں نے ای ٹی بھارت کو بتایا کہ ہگلی مدرسہ کو رفتہ رفتہ ایک سازش کے تحت اس حالت میں پہنچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہگلی مدرسہ ماضی میں مقبول ترین تعلیمی ادارہ تھا ۔ یہاں کا تعلیمی معیار بہت بہترین جس کی وجہ سے دور دراز سے اس زمانے طلباء یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس مدرسہ کے معروف طالب علموں میں سر سید عامر علی ،فر فرا شریف کے پیر ابو بکر صدیقی تھے ۔

جب مدرسہ قائم ہوا اس وقت ہی ست یہاں طلباء کے لئے ہاسٹل بھی قائم کیا گیا تھا انہوں نے کہا کہ کہا بنگال میں اور کئی دو سو سالہ ادارے ہیں جو آج بھی قائم ہے جیسے ہندو اسکول جو آج بھی رواں دواں ہے لیکن اس ادارے کو سابق اور موجودہ دونوں حکومتوں نے ایک سازش کے تحت برباد کر دیا۔


مغربی بنگال میں مسلمانوں کے کئی تاریخی مسلم ادارے ہیں جنہیں مسلمانوں نے قوم کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کیا تھا۔ ان میں سے کئی ادارے بے توجہی کا شکار ہوکر ختم ہو گئی تو کئی حکومتوں کی بے توجہی اور مسلمانوں کے عدم دلچسپی کے سبب بربادی کے دہانے پر ہیں۔

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی

ایسا ہی ایک تعلیمی ادارہ آج سے دو سو سال قبل دارلحکومت کولکاتا سے چالیس کیلومیٹر دور ضلع ہگلی کے چنسورہ میں معروف شخصیت اور تعلیم دوست حاجی محمد محسن نے ہگلی مدرسہ قائم کیا تھا. اس کا ماضی بہت شاندار رہا ہے اور اس مدرسے سے کئی عظیم شخصیات نے تعلیم حاصل کی لیکن مسلمانوں کا یہ تعلیمی آج مسلمانوں کی عدم دلچسپی اور حکومت کی عدم توجہی کے سبب بربادی کے دہانے پر ہے۔

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی
دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی

ہگلی مدرسہ کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد ناصر مزید کہا کہ یہ مدرسہ میں شروع میں شہ لسانی تعلیم دی جاتی تھی لیکن اور سائنس اور تاریخ و جغرافی کی تعلیم کے لئے ہر زبان اساتذہ موجود تھے لیکن جب بنگال میں بایاں محاذ کی حکومت قائم ہوئی تو پرانے اساتذہ کے سبکدوش ہونے کے بعد اردو اور عربی شعبہ میں نئے اساتذہ کی تقرری نہیں ہوئی ۔

جبکہ بنگلہ کے شعبے اساتذہ کی وافر تعداد موجود رہی جس کے نتیجے میں اردو اور عربی میڈیم کے طالب علموں کو مجبورا اردو اور عربی کے علاوہ جدید سائنس کی تعلیم کے لئے بنگلہ زبان پر اکتفا کرنا پڑتا تھا ۔

اس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ مدرسے میں طلباء کی تعداد کم ہوتی گئی اتنی کم ہوگئی کہ ایک وقت ایسا بھی جب طلباء سے زیادہ اساتذہ کی تعداد ہوگئی چونکہ ہگلی مدرسہ مغربی بنگال حکومت کے ماتحت تھا۔

دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی
دو سو سالہ تاریخی ہگلی مدرسہ کی زبوں حالی

پی ایس سی نے اساتذہ دوسرے سرکاری اسکولوں میں منتقل کر دیا جب 2011 میں ممتا بنرجی کی حکومت آئی تو اس حکومت نے بھی مدرس۔مدرسہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔ مسلمانوں کو ہگلی مدرسہ کے نام پر سبز باغ دکھا گیا ۔

مغربی بنگال مدرسہ بورڈ نے ہگلی مدرسہ کو اپنی تحویل میں لیکر انگریزی میڈیم اسکول قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی اس اور کئی برسوں سے مدرسہ بند ہے گرچہ انگریزی میڈیم اسکول کے نام پر ایک نئی عمارت تعمیر ہو چکی ہے لیکن ہگلی مدرسہ کا کیا ہوگا اس سلسلے میں کسی کے پاس جواب نہیں گرچہ کئی بار ہگلی مدرسہ کی بازیابی اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لئے تحریک بھی ہوتی رہی ہیں لیکن کچھ مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے اور ایک تاریخی تعلیمی ادارہ اپنی قسمت پر رونے پر مجبور ہے۔

مغربی بنگال کے ضلع ہگلی میں حاجی محمد محسن آج سے دو سو سال قبل مسلمانوں کی پسماندگی کے سبب تلاش کر رہے اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو لیکر فکر مند تھے ۔ انہوں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی ساری دولت کو مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لئے وقف کردیا۔

انہوں نے اپنی زندگی میں ہی دو تعلیمی اداروں کی بنیاد ڈالی جن میں سے ایک ہگلی محسن کالج آج بھی پوری اب و تاب کے ساتھ قائم ہے لیکن 1817 میں حاجی محمد محسن کی قائم کردہ ہگلی مدرسہ اپنی زبوں حالیہ پر ماتم کر رہا ہے ۔

اس مدرسے کا ماضی بہت شاندار رہا ہے اور کئی عظیم شخصیات نے یہاں تعلیم حاصل کی تھی یہاں پو بنگلہ ،عربی ،اردو کے علاوہ جدید تعلیم کا بھی نظم تھا۔ ہندو مسلم دونوں اس ادارے سے اپنی تعلیمی پیاس بجھانے رہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جب ملک میں سیاسی تبدیلی ہوتی رہی ۔

مدرسے کو مسلمانوں کا ادارہ ہونے کی سزا بھگتنی پڑی اور رفتہ رفتہ اس ادارے کی عظمت تاریخ کا حصہ بن گئی۔ سب سے زیادہ اس ادارے کو بایاں محاذ کی 34 سالہ اقتدار کے دوران نقصان پہنچا اور بالآخر ہگلی مدرسہ کی بند ہونے کی نوبت آ گئی۔

اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت بھارت نے ہگلی مدرسہ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا۔ ہگلی مدرسہ کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد ناصر سے بات چیت کی ایک خاص بات چیت کے دوران انہوں نے ای ٹی بھارت کو بتایا کہ ہگلی مدرسہ کو رفتہ رفتہ ایک سازش کے تحت اس حالت میں پہنچایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہگلی مدرسہ ماضی میں مقبول ترین تعلیمی ادارہ تھا ۔ یہاں کا تعلیمی معیار بہت بہترین جس کی وجہ سے دور دراز سے اس زمانے طلباء یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ اس مدرسہ کے معروف طالب علموں میں سر سید عامر علی ،فر فرا شریف کے پیر ابو بکر صدیقی تھے ۔

جب مدرسہ قائم ہوا اس وقت ہی ست یہاں طلباء کے لئے ہاسٹل بھی قائم کیا گیا تھا انہوں نے کہا کہ کہا بنگال میں اور کئی دو سو سالہ ادارے ہیں جو آج بھی قائم ہے جیسے ہندو اسکول جو آج بھی رواں دواں ہے لیکن اس ادارے کو سابق اور موجودہ دونوں حکومتوں نے ایک سازش کے تحت برباد کر دیا۔


Intro:مغربی بنگال میں مسلمانوں کے کئی تاریخی مسلم ادارے ہیں جنہیں مسلمانوں نے قوم کی فلاح و بہبود کے لئے قائم کیا تھا ان میں سے کئی ادارے بے توجہی کا شکار ہوکر ختم ہو گئی تو کئی حکومتوں کی بے توجہی اور مسلمانوں کے عدم دلچسپی کے سبب بربادی کے دہانے پر ہیں ایسا ہی ایک تعلیمی ادارہ آج سے دو سو سال قبل دارلحکومت کولکاتا سے چالیس کیلومیٹر دور ضلع ہگلی کے چنسورہ میں معروف شخصیت اور تعلیم دوست حاجی محمد محسن نے ہگلی مدرسہ قائم کیا تھا جس کا ماضی بہت شاندار رہا ہے اور اس مدرسے سے کئی عظیم شخصیات نے تعلیم حاصل کی لیکن مسلمانوں کا یہ تعلیمی آج مسلمانوں کی عدم دلچسپی اور حکومت کی عدم توجہی کے سبب بربادی کے دہانے پر ہے۔ہگلی مدرسہ کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد ناصر مزید کہا کہ یہ مدرسہ میں شروع میں شہ لسانی تعلیم دی جاتی تھی لیکن اور سائنس اور تاریخ و جغرافی کی تعلیم کے لئے ہر زبان اساتذہ موجود تھے لیکن جب بنگال میں بایاں محاذ کی حکومت قائم ہوئی تو پرانے اساتذہ کے سبکدوش ہونے کے بعد اردو اور عربی شعبہ میں نئے اساتذہ کی تقرری نہیں ہوئی جبکہ بنگلہ کے شعبے اساتذہ کی وافر تعداد موجود رہی جس کے نتیجے میں اردو اور عربی میڈیم کے طالب علموں کو مجبورا اردو اور عربی کے علاوہ جدید سائنس کی تعلیم کے لئے بنگلہ زبان پر اکتفا کرنا پڑتا تھا جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ مدرسے میں طلباء کی تعداد کم ہوتی گئی اتنی کم ہوگئی کہ ایک وقت ایسا بھی جب طلباء سے زیادہ اساتذہ کی تعداد ہوگئی چونکہ ہگلی مدرسہ مغربی بنگال حکومت کے ماتحت تھا پی ایس سی نے اساتذہ دوسرے سرکاری اسکولوں میں منتقل کر دیا جب 2011 میں ممتا بنرجی کی حکومت آئی تو اس حکومت نے بھی مدرس۔مدرسہ کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور مسلمانوں کو ہگلی مدرسہ کے نام پر سبز باغ دکھا گیا بعد مغربی بنگال مدرسہ بورڈ نے ہگلی مدرسہ کو اپنی تحویل میں لیکر انگریزی میڈیم اسکول قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی اس اور کئی برسوں سے مدرسہ بند ہے گرچہ انگریزی میڈیم اسکول کے نام پر ایک نئی عمارت تعمیر ہو چکی ہے لیکن ہگلی مدرسہ کا کیا ہوگا اس سلسلے میں کسی کے پاس جواب نہیں گرچہ کئی بار ہگلی مدرسہ کی بازیابی اور اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لئے تحریک بھی ہوتی رہی ہیں لیکن کچھ مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے اور ایک تاریخی تعلیمی ادارہ اپنی قسمت پر رونے پر مجبور ہے۔


Body:مغربی بنگال کے ضلع ہگلی میں حاجی محمد محسن آج سے دو سو سال قبل مسلمانوں کی پسماندگی کے سبب تلاش کر رہے اور مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو لیکر فکر مند تھے انہوں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی ساری دولت کو مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لئے وقف کردیا۔انہوں نے اپنی زندگی میں ہی دو تعلیمی اداروں کی بنیاد ڈالی جن میں سے ایک ہگلی محسن کالج آج بھی پوری اب و تاب کے ساتھ قائم ہے لیکن 1817 میں حاجی محمد محسن کی قائم کردہ ہگلی مدرسہ اپنی زبوں حالیہ پر ماتم کر رہا ہے ۔اس مدرسے کا ماضی بہت شاندار رہا ہے اور کئی عظیم شخصیات نے یہاں تعلیم حاصل کی تھی یہاں پو بنگلہ ،عربی ،اردو کے علاوہ جدید تعلیم کا بھی نظم تھا اور ہندو مسلم دونوں اس ادارے سے اپنی تعلیمی پیاس بجھانے رہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جب ملک میں سیاسی تبدیلی ہوتی رہی اور مدرسے کو مسلمانوں کا ادارہ ہونے کی سزا بھگتنی پڑی اور رفتہ رفتہ اس ادارے کی عظمت تاریخ کا حصہ بن گئی۔سب سے زیادہ اس ادارے کو بایاں محاذ کی 34 سالہ اقتدار کے دوران نقصان پہنچا اور بالآخر ہگلی مدرسہ کی بند ہونے کی نوبت آ گئی۔اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت بھارت نے ہگلی مدرسہ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا اور ہگلی مدرسہ کے سابق ہیڈ ماسٹر محمد ناصر سے بات چیت کی ایک خاص بات چیت کے دوران انہوں نے ای ٹی بھارت کو بتایا کہ ہگلی مدرسہ کو رفتہ رفتہ ایک سازش کے تحت اس حالت میں پہنچایا گیا انہوں نے کہا کہ ہگلی مدرسہ ماضی میں مقبول ترین تعلیمی ادارہ تھا اور یہاں کا تعلیمی معیار بہت بہترین جس کی وجہ سے دور دراز سے اس زمانے طلباء یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے اس مدرسہ کے معروف طالب علموں میں سر سید عامر علی ،فر فرا شریف کے پیر ابو بکر صدیقی تھے جب مدرسہ قائم ہوا اس وقت ہی ست یہاں طلباء کے لئے ہاسٹل بھی قائم کیا گیا تھا انہوں نے کہا کہ کہا بنگال میں اور کئی دو سو سالہ ادارے ہیں جو آج بھی قائم ہے جیسے ہندو اسکول جو آج بھی رواں دواں ہے لیکن اس ادارے کو سابق اور موجودہ دونوں حکومتوں نے ایک سازش کے تحت برباد کر دیا۔


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.