وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے ریاست کے ماہرین تعلیم، اساتذہ اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ اہم شخصیات کے ساتھ میٹنگ کی جس میں نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق میٹنگ میں تعلیمی پالیسی کے کئی اہم نکات پر اعتراض کیا گیا۔ریاستی وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی نے کہا کہ میٹنگ کے شرکاء نے مجھے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی سے بات چیت کرنے اور ضرورت پڑی تو اس مسودہ کے خلاف سڑک پر کھل کر احتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیمی پالیسی پر ایک اور میٹنگ 17جولائی کو ہوگی۔اس میٹنگ میں مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور دیگر اہم شخصیات موجود رہیں گی۔
پارتھو چٹرجی نے کہا کہ مرکزی حکومت نے مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں تبدیلی لانے کی ہدایت دی ہے اور یہ سب ریاستی حکومتوں کو اطلاع دیے بغیر کیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاستی یونیورسٹیاں وزارت تعلیم سے گفتگو کیے بغیر آگے قدم نہیں بڑھا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ انڈرگریجوٹ کورس میں انگلش میں مہابھارت اور شکنتلا کے اسباق کو شامل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیاں خود مختار ہوتی ہیں اور وہ اپنے طور پر نصاب تعلیم مرتب کرتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ قومی تعلیمی پالیسی میں بنگال کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ان میں ودیا ساگر اور رام موہن جو بنگال کی اہم شخصیات ہیں کے ناموں شامل نہیں ہیں،انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی کو ڈرافت کرتے وقت بنگال کے کسی بھی اکیڈمک یا پھر ٹیچرایسوسی ایشن کے نمائندوں سے بات چیت نہیں کی گئی ہے۔
میٹنگ میں شامل نرسنہا پرساد بھادری نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی میں پانچ زبانوں کو سیکھنے پر زور دیا گیا ہے۔اس سے سیکھنے والوں پر بوجھ میں اضافہ ہوگا۔ہم چاہتے ہیں کہ صرف تین زبانوں کو شامل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی میں بے شمار خامیاں ہیں جس کی ہم لوگوں نے وزیر تعلیم کے ساتھ میٹنگ میں نشاندہی کردی ہے۔محکمہ تعلیم کے پرسیکریٹری سوکمار نے کہا کہ ہمارا قومی تعلیمی پالیسی کے کئی حصوں پر اعتراض ہے،سمسٹر کے بارے میں بھی اعترا ض کیا گیا ہے۔