کشمیر کی تاریخ کو مسخ کرنے کا الزام عاید کرتے ہوئے کشمیر سی پی ایم کے رہنما یوسف تاریگامی نے آج سوال کیا ہے کہ بھارت کی آزادی کے بعد جموں و کشمیر سمے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہورہے تھے ۔اس وقت وادی کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک بھی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔وادی میں ہندواور مسلمان مل جل کر رہتے تھے۔
یوسف تاریگامی نے کہا کہ جموں میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عا م ہونے کے باوجود وادی میں امن کا ماحول تھا۔
انہوں نے مودی سے سوال کیا کہ بھارت کی آزادی کے بعد کشمیر کے مسلمانوں نے اسلام پسند ملک پاکستان کے ساتھ جانے کے بجائے سیکولر ہندوستان کے رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی آزادی کے وقف مہاراجہ تو ہندوستان اور پاکستان کا انتخاب کرنے میں تذب تذب کے شکار تھے۔وہ دونوں کے ساتھ بات چیت کررہے تھے مگر اس درمیان قبائلیوں نے اچانک کشمیر تک حملہ کردیا اور بارہمولہ تک پہنچ گئے اور جلد ہی سری نگر تک پہنچنے والے تھے اس وقت مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد مانگی۔مگر پہلے کشمیری مسلمانوں نے پاکستانی قبائلیوں کا مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کی مددکی۔
یوسف تاریگامی نے 370کو ہٹائے جانے کو کشمیریوں کی شناخت پرحملہ قرار دیتے کہا کہ بھارتی حکمرانوں نے ملک کے قانون ساز اسمبلی سے قانون بناکر جموں وکشمیر کو اپنا آئین بنانے کی اجازت دی تھی اور 370کی دفعہ بھی اس وعدے کے ساتھ نافذ کیا گیا تھا کہ اگر مستقبل میں اس قانون کو ہٹایا جائے گا تو جموں و کشمیر کے عوام کی اجازت اور رائے کے بعدہی اس قانون کو ہٹایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ امیت شاہ نے جھوٹ بولا ہے کہ اس قانون کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ 1990سے قبل کشمیر میں کیا دہشت گردی تھی؟ جب کہ اس سے قبل پڑوسی ریاست پنجاب دہشت گردی کا شکار تھا۔شمال مشرقی ریاستیں دہشت گردی کے زد میں تھا مگر ہمارے یہاں امن و امان کا ماحول تھا۔اس لیے 370کو دہشت گردی سے جوڑنا جھوٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ امیت شاہ کہہ رہے ہیں کہ 370کے قانون کی وجہ سے جموں و کشمیر پسماندگی کا شکار تھا۔یہ جھوٹ ہے۔ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے مقابلے وادی میں غربت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2014سے قبل جموں و کشمیر کی جی ڈی پی 8فیصد سے زیادہ تھی مگر مودی کے دور حکومت میں اس کی گراوٹ ائی۔سوال ان سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ انہوں نے کشمیر کیلئے کیا کیا ہے۔
جب کہ 370کے قانون کے نتیجے میں وادی میں کسانوں کو زمین کا حق ملا اور اس کی وجہ سے ان کی حالت بہتر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ مہاراجہ کے دور میں کاشتکاری اور زمینداری کا دور تھا۔کسانوں کو کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔شیخ عبد اللہ نے اسی کے خلاف مہم چلائی تھی۔انہوں نے کہا کہ زمینداروں سے زمین چھینے کے خلاف پہلی مرتبہ آر ایس ایس نے جموں میں احتجاج کیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ آج جموں و کشمیر کے عوام کی شناخت چھینی گئی ہے اور ان کے حق کو محروم کیا گیا ہے۔کل کوئی بعید نہیں ہے کہ آج کے حکمراں 371کو بھی ختم کردیں۔کیوں کہ جولوگ آج اقتدار میں ان کے آئیڈیولوجی میں ملک کے دستور اور آئین کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 14اگست 1949میں آر ایس ایس کے ترجمان اخبار آرگنائزر کے ایڈوریل میں ترنگا پر سخت تنقید کی گئی تھی اور کہا تھا کہ یہ شیطانیت کی علامت ہے۔اس کے علاوہ 1949کو گروگوالکر نے ہندوستان کے دستور کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کاغذ کا ایک ایسا ٹکرا ہے جسے یورب کے چربے سے تیار کیا گیا ہے۔
یوسف تاریگامی نے کہاکہ پورا کشمیر اس وقت جیل خانہ میں تبدیل ہوگیا ہے اور مرکزی حکومت کی غلط پالیسی نے کشمیری عوام کو ایک صفحہ پرجمع کردیا تھا۔کل تک سیاسی اختلافات تھے مگر آج سب متحد ہوگئے ہیں کیوں کہ انہوں نے ان لوگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے جو بلندآواز سے بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگاتے تھے اور جولوگ مودی کو مضبوط لیڈر بولتے تھے وہ سب آج قید میں ہے۔اخبارات سے آزادی چھین لی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو صحیح نام ڈونیشن سٹیزن ایکٹ ہے۔ملک کو جناح کی راہ پرلگادیا گیا ہے۔