پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپرنا سین نے کہا کہ اس وقت ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات ہورہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں،کبھی بیف کھانے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی جے شری رام کا نعرہ نہیں لگانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے'۔انہوں نے کہا کہ دوسرے مذہب پر یقین رکھنے والوں کو جے شری رام کے نعرے کیلئے مجبور کرنا کیا درست ہے، میں ہندو ہوں اور اس پر یقین رکھتی ہوں۔ مجھے کوئی اللہ اکبر کہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا ہے۔
اپرنا سین نے کہا کہ جے شری رام، اللہ اکبر، جے بنگلا، جے ماں کالی یا پھر جے مہادیو کے نعروں میں ہر ایک کو اپنی پسند کے نعرے لگانے کا حق ہیں۔مگر یہ سب پیار اور محبت کے ماحول میں ہونا چاہیے۔زبردستی کوئی بھی نعرہ لگانے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔
اپرنا سین نے کہا کہ ہم لوگوں نے جو خط لکھے ہیں اس میں ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے واقعات پر لکھے ہیں۔اپرنا سین نے کہا کہ ملک میں دلتوں اور اقلیتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار کی روشنی میں ہم نے دعویٰ کیے ہیں۔
خیال رہے کہ اپرنا سین حالیہ دنوں میں کئی ایشو ز پر اپنی بات کھل کر رکھا ہے۔ایک طرف جہاں وہ این آر ایس میڈیکل کالج میں جونیئر ڈاکٹروں کے ساتھ مارپیٹ کے واقع اور کانکی نارہ و پھاٹ پارہ میں تشدد کے واقعات پر کھل کر اپنی بات رکھی اور ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کی سخت تنقید کی ہے۔
بھاٹ پارہ میں تشدد کے واقعات کیلئے ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں کویکساں ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ دونوں پارٹیاں اپنے مفادات کیلئے تشدد کو ہوا دے رہی ہیں اور یہ سب سیاسی مفادات کی خاطر عوام کو آگ میں جھونکا جارہا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے حالیہ دنوں میں بنگلہ فلمی شخصیات کے بی جے پی میں شامل ہونے پر کہا تھا کہ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔
اقتدار کے ساتھ رہنے کا رجحان رہا ہے۔جب سی پی ایم اقتدار میں تھی تو یہ لوگ ان کے ساتھ تھے، جب ترنمول کانگریس کا ستارہ عروج پر تھاتویہ لوگووہاں تھے اور اب جب کہ ترنمول کانگریس کا ستارہ غروب ہورہا ہے تو یہ لوگ بی جے پی میں آرہے ہیں۔انہوں نے بنگال کی سیاست میں بایاں محاذ اور کانگریس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھاکہ سیکولر فورسز کا باقی رہنا ضروری ہے۔