ETV Bharat / state

'تشدد کے واقعات پر احتجاج جمہوری حق '

ہجومی تشدد کے واقعات پر وزیرا عظم نریندر مودی کو خط لکھنے میں شامل فلم ڈائریکٹر و اداکارہ اپرنا سین نے کہا ہے کہ 'جمہوریت میں احتجاج کرنا ملک کے ہر ایک شہری کا حق ہے اور ہم لوگوں نے موجودہ حالات میں جو محسوس کیا ہے اس پر وزیرا عظم کی توجہ مبذول کرائی ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں جے شری رام کے نعرے کے نام پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے'۔

author img

By

Published : Jul 24, 2019, 8:32 PM IST

'تشدد کے واقعات پر احتجاج جمہوری حق '

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپرنا سین نے کہا کہ اس وقت ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات ہورہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں،کبھی بیف کھانے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی جے شری رام کا نعرہ نہیں لگانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے'۔انہوں نے کہا کہ دوسرے مذہب پر یقین رکھنے والوں کو جے شری رام کے نعرے کیلئے مجبور کرنا کیا درست ہے، میں ہندو ہوں اور اس پر یقین رکھتی ہوں۔ مجھے کوئی اللہ اکبر کہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا ہے۔

اپرنا سین نے کہا کہ جے شری رام، اللہ اکبر، جے بنگلا، جے ماں کالی یا پھر جے مہادیو کے نعروں میں ہر ایک کو اپنی پسند کے نعرے لگانے کا حق ہیں۔مگر یہ سب پیار اور محبت کے ماحول میں ہونا چاہیے۔زبردستی کوئی بھی نعرہ لگانے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔

اپرنا سین نے کہا کہ ہم لوگوں نے جو خط لکھے ہیں اس میں ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے واقعات پر لکھے ہیں۔اپرنا سین نے کہا کہ ملک میں دلتوں اور اقلیتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار کی روشنی میں ہم نے دعویٰ کیے ہیں۔

خیال رہے کہ اپرنا سین حالیہ دنوں میں کئی ایشو ز پر اپنی بات کھل کر رکھا ہے۔ایک طرف جہاں وہ این آر ایس میڈیکل کالج میں جونیئر ڈاکٹروں کے ساتھ مارپیٹ کے واقع اور کانکی نارہ و پھاٹ پارہ میں تشدد کے واقعات پر کھل کر اپنی بات رکھی اور ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کی سخت تنقید کی ہے۔

بھاٹ پارہ میں تشدد کے واقعات کیلئے ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں کویکساں ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ دونوں پارٹیاں اپنے مفادات کیلئے تشدد کو ہوا دے رہی ہیں اور یہ سب سیاسی مفادات کی خاطر عوام کو آگ میں جھونکا جارہا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے حالیہ دنوں میں بنگلہ فلمی شخصیات کے بی جے پی میں شامل ہونے پر کہا تھا کہ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔

اقتدار کے ساتھ رہنے کا رجحان رہا ہے۔جب سی پی ایم اقتدار میں تھی تو یہ لوگ ان کے ساتھ تھے، جب ترنمول کانگریس کا ستارہ عروج پر تھاتویہ لوگووہاں تھے اور اب جب کہ ترنمول کانگریس کا ستارہ غروب ہورہا ہے تو یہ لوگ بی جے پی میں آرہے ہیں۔انہوں نے بنگال کی سیاست میں بایاں محاذ اور کانگریس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھاکہ سیکولر فورسز کا باقی رہنا ضروری ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپرنا سین نے کہا کہ اس وقت ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات ہورہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں،کبھی بیف کھانے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی جے شری رام کا نعرہ نہیں لگانے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے'۔انہوں نے کہا کہ دوسرے مذہب پر یقین رکھنے والوں کو جے شری رام کے نعرے کیلئے مجبور کرنا کیا درست ہے، میں ہندو ہوں اور اس پر یقین رکھتی ہوں۔ مجھے کوئی اللہ اکبر کہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا ہے۔

اپرنا سین نے کہا کہ جے شری رام، اللہ اکبر، جے بنگلا، جے ماں کالی یا پھر جے مہادیو کے نعروں میں ہر ایک کو اپنی پسند کے نعرے لگانے کا حق ہیں۔مگر یہ سب پیار اور محبت کے ماحول میں ہونا چاہیے۔زبردستی کوئی بھی نعرہ لگانے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے۔

اپرنا سین نے کہا کہ ہم لوگوں نے جو خط لکھے ہیں اس میں ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہونے والے واقعات پر لکھے ہیں۔اپرنا سین نے کہا کہ ملک میں دلتوں اور اقلیتوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار کی روشنی میں ہم نے دعویٰ کیے ہیں۔

خیال رہے کہ اپرنا سین حالیہ دنوں میں کئی ایشو ز پر اپنی بات کھل کر رکھا ہے۔ایک طرف جہاں وہ این آر ایس میڈیکل کالج میں جونیئر ڈاکٹروں کے ساتھ مارپیٹ کے واقع اور کانکی نارہ و پھاٹ پارہ میں تشدد کے واقعات پر کھل کر اپنی بات رکھی اور ممتا بنرجی کی قیادت والی حکومت کی سخت تنقید کی ہے۔

بھاٹ پارہ میں تشدد کے واقعات کیلئے ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں کویکساں ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ دونوں پارٹیاں اپنے مفادات کیلئے تشدد کو ہوا دے رہی ہیں اور یہ سب سیاسی مفادات کی خاطر عوام کو آگ میں جھونکا جارہا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے حالیہ دنوں میں بنگلہ فلمی شخصیات کے بی جے پی میں شامل ہونے پر کہا تھا کہ یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔

اقتدار کے ساتھ رہنے کا رجحان رہا ہے۔جب سی پی ایم اقتدار میں تھی تو یہ لوگ ان کے ساتھ تھے، جب ترنمول کانگریس کا ستارہ عروج پر تھاتویہ لوگووہاں تھے اور اب جب کہ ترنمول کانگریس کا ستارہ غروب ہورہا ہے تو یہ لوگ بی جے پی میں آرہے ہیں۔انہوں نے بنگال کی سیاست میں بایاں محاذ اور کانگریس کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھاکہ سیکولر فورسز کا باقی رہنا ضروری ہے۔

Intro:عالیہ یونیورسٹی انتظامیہ نے فیس میں اضافے کا فیصلہ واپس لیا عالیہ یونیورسٹی کے طلباء دو روز سے اس کے خلاف تحریک چلا رہے تھے تمام سمیسٹر کا خرچ صرف دو ہزار روپئے تھے جس کو بڑھاکر نو ہزار روپئے کر دیا گیا تھا جس کے خلاف طلباء گزشتہ ایک سال تحریک چلا رہے تھے.


Body:مغربی بنگال کے اقلیتوں کے لئے مخصوص تعلیمی ادارہ عالیہ یونیورسٹی جس میں تقریباً 80 فیصد مسلم طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں آس یونیورسٹی کا قیام کا مقصد غریب اقلیتوں کے لئے اعلیٰ تعلیم میں آسانی پیدا کرنا تھا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے فیس میں مختلف وجوہات بتاکر بار بار اضافہ کرنے سے بے چینی پائی جا رہی تھی اور اس کے خلاف 2018 سے طلباء تحریک چلا رہے تھے اس سال بھی داخلہ فیس 550 روپئے سے بڑھا کر 2660 روپئے کر دیا گیا جس کے طلباء نے سخت احتجاج کیا جس کے بعد وی سی نے طلباء کے ساتھ میٹنگ کی اور طلباء کی جانب سے شدید احتجاج کرنے کی وجہ سے یونیورسٹی کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا عالیہ یونیورسٹی کے وی سی محمد علی نے ای ٹی وی بھارت کو فون پر بتایا کہ بلبایکے مطالبہ قبول کر لیا گیا ہے اور فیس کا جو پرانا ڈھانچہ تھا اس کو ہی بحال رکھا گیا ہے. مدرسہ طلباء یونین کے صدر ساجد الرحمان نے ای ٹی وی کو بتایا کہ ہماری شدید احتجاج کرنے کی وجہ سے وی سی کو ہمارے مطالبات ماننے پڑے اور فیس میں اضافہ کا جو نوٹس دیا گیا تھا اس کو واپس لینا پڑا اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ ہمارے اور بھی مطالبات ہیں طلباء کے لئے ہاسٹل کی کمی ہے لہزا ہاسٹل کا انتظام کرنا پڑے گا اور انتظامیہ نے ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈ کو واپس کر دیا گیا جبکہ یونیورسٹی بہت سی سہولیات میسر نہیں ہیں لیکن انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ 55 لاکھ کا ترقیاتی فنڈ واپس چلا گیا.


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.