گرچہ سیاسی سطح پر مرکزی حکومت اور ممتا بنرجی کی قیادت والی بنگال حکومت کے درمیان کھینچ تان چل رہی ہے۔
تاہم مرکزی وزارت شماریات نے اپنے تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ زراعت،صحت اور تعلیم کے شعبے میں بنگال میں قومی سطح کے مقابلے زیادہ ترقی کی ہے اور اس کی وجہ سے بے روزگار دوسری ریاستوں کے مقابلے بنگال میں کہیں زیادہ کم ہے۔
مرکزی وزارت شماریات کے دفتر سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20017-18میں گزشتہ45سالوں میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح 6.1فیصد رہی ہے مگر اس کے مقابلے میں بنگال میں بے روزگاری کی شرح 4.6فیصد ہے۔
جب کہ 11بڑی ریاستیں جس میں تمل ناڈو، کیرالہ، تلنگانہ، ہریانہ،اترا کھنڈ،اترپردیش، جھار کھنڈ،آسام،پنجاب اور اڑیسہ میں قومی سطح کے مقابلے زیادہ بے روزگاری ہے۔
بنگال میں مرد وخواتین دونوں میں قومی سطح کے مقابلے بے روزگاری کم ہے۔اسی طرح شہراور دیہی علاقے دونوں میں دوسری ریاستوں میں بے روزگاری کی شرح کم ہے۔
بنگال کے وزیر خزانہ امیت مترا ریاست بے روزگاری کی شرح میں کمی کا پورا سہرا چھوٹی صنعتوں کو دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریزر وبینک کے سابق ڈپٹی گورنر راکیش موہن نے بنگال سے متعلق کہا تھا کہ چھوٹی انڈسٹریوں کی وجہ سے ریاست میں روزگار کے مواقع زیادہ ہیں۔یہ کیسے کیا جاسکتا ہے یہ بنگال سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
تاہم وزارت شماریات کے سروے میں بنگال کی اچھی تصویر پیش کی ہے۔کچھ حقائق اس میں چھپے ہوئے ہیں۔قومی سطح کے مقابلہ بنگال میں ورکروں کو 32فیصد زیادہ کام کرنے پڑتے ہیں۔
ماہر معیشت پرسجنیت باسو کے مطابق بنگال میں 59فیصد ورکروں کے پاس سماجی تحفظ کیلئے پی ایف، ای ایس آئی جیسی سہولیات نہیں ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں روزگار تو ہیں مگر اچھے روزگار نہیں ہے۔
ماہرین معیشت کے مطابق بنگال میں لیدر انڈسٹری بان تلہ میں 10سے 12ہزار افرادکام کرتے ہیں۔
کانپور انڈسٹری میں کام کرنے والے زیادہ تر بنگال سے جاتے ہیں، جیولریح، پٹروکیمیکل انڈسٹری،ٹیکسٹائل اور دیگر انڈسٹری میں بھی ورکروں کا تعلق زیادہ تر بنگال سے ہے۔
تاہم اپوزیشن جماعتوں نے وزارت شماریات کی رپورٹ پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر بنگال روزگارکے معاملے میں اسی قدر آگے ہیں تو پھر چوتھے کلاس کی ملازمت کیلئے 6000آسامیوں کیلئے24لاکھ درخواست کا کیا مطلب ہے۔