ETV Bharat / state

بنگال کے انتخابی اکھاڑے میں نندی گرام سانحہ کی گونج

author img

By

Published : Mar 31, 2021, 1:30 PM IST

Updated : Mar 31, 2021, 1:54 PM IST

نندی گرام میں ہار جیت کی چابی سی پی آئی (ایم) کی اُمیدوار میناکشی مکھرجی کے پاس ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے ممتا اور سُویندو کے درمیان ہار جیت کا انحصار اُن ہی پر ہے۔ اس لیے ممتا کی تازہ کوشش بائیں بازو پر غالب آنا ہے۔ وہ لیفٹ کے اُن رائے دہندگان کو لبھانا چاہتی ہیں، جو زعفرانی خیمے میں چلے گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نندی گرام سانحہ میں لیفٹ کو کلین چٹ دیئے جانے کی وجہ سے انہیں زیادہ ووٹ حاصل ہو سکتے ہیں۔

بنگال کے انتخابی اکھاڑے میں نندی گرام سانحہ کی گونج
بنگال کے انتخابی اکھاڑے میں نندی گرام سانحہ کی گونج

کیا ممتا بی جے پی کو کمزور کرنے کے لیے بائیں بازو کو راحت پہنچارہی ہیں؟ پیش ہے ای ٹی وی بھارت کے نیوز کارڈینیٹر دپانکر بوس کی رپورٹ:

مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سب سے پہلے دو آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئے ہیں۔ ایک ٹیپ میں بی جے پی لیڈر مُکل رائے جو اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی جانب سے بطور ایک اُمیدوار بھی کھڑے ہیں، پارٹی کے ایک اور کارکن سے بات چیت کرتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں۔ اس بات چیت میں مُکل رائے بوتھ ایجنٹس کی تعیناتی کے حوالے سے تبدیل شدہ قوانین کے معاملے پر الیکشن کمیشن سے رابطہ کرنے کی بات کرتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔

وہیں، دوسرے ٹیپ میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کو مدناپور ضلع کے ایک بی جے پی کارکن سے بات کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ ممتا بی جے پی لیڈر سے انتخابات کے دوران اُن کی (ممتا کی) پارٹی کو مدد کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ گو کہ ان دونوں آڈیو ٹیپس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے، تاہم ان کے منظر عام پر آنے سے ہلچل مچ گئی ہے۔

ان واقعات کے بعد سب سے بڑا واقعہ یہ سامنے آیا کہ ممتا بنرجی نے 28 مارچ کو نندی گرام کے رائے پارا علاقے میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے 'باپ-بیٹے' یعنی سِسر ادھیکاری اور اُن کے بیٹے سُویندو ادھیکاری کو 14 مارچ 2007 کو نندی گرام میں ہوئی ہلاکتوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔ اس سانحہ میں 14 افراد مارے گئے تھے۔ در اصل یہاں انڈونیشیا کے ایک تجارتی گروپ، سلیم گروپ کی جانب سے پیٹرولیم، کیمیکل اور فارماسیوٹیکل صنعتی کارخانے کھولنے کے لیے حکومت زمینیں تحویل میں لے رہی تھی۔ اس کی مخالفت میں مقامی لوگ احتجاج کر رہے تھے۔

منظر عام پر آنے والی ٹیپ میں ممتا کو یہ باتیں سُویندو، جو ایک زمانے میں اُن کے قریبی ساتھی ہوا کرتے تھے، کو بتاتے ہوئے سُنا جاسکتا ہے۔ ممتا اُن سے کہہ رہی ہیں، ’’ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ جنہوں نے فائر کیا تھا، وہ چپل پہنے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے ہوائی چپل پہن رکھے تھے۔ اب کی بار یہ لوگ دوبارہ پریشان کن صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ میں چیلنج کرتی ہوں کہ باپ بیٹے کی اجازت کے بغیر پولیس اُس دن نندی گرام میں گھسنے کی ہمت نہیں کر پاتی۔ چلو ٹھیک ہے، میں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا، کیونکہ میں بدرولک (شریف) ہوں۔‘‘

ممتا کے یہ الفاظ منظر عام پر آجانے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ سوشل میڈیا اور مختلف میڈیا آوٹ لیٹس میں افراتفری کا ماحول مچ گیا اور یہ پیغام پھیلنے لگا کہ بدھادیب بٹاچاریہ جی کی دھوتی پر لگے خون کے دھبے بالآخر کسی اور نے نہیں بلکہ ممتا بنرجی نے ہی صاف کیے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر 14 سال بعد اچانک ممتا نے یہ بات کُھلے عام کیوں کہہ دی؟ آخر اُنہیں یہ بات کہنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنے چار دہائیوں پر محیط اپنے سیاسی کیرئر میں سب سے اہم انتخاب لڑنے جارہی ہیں؟ اُس نے نندی گرام کے واقعہ کا ذکر چھیڑ کر سی پی آئی (ایم)، جس کے ساتھ ممتا نے ماضی میں دو دو ہاتھ کیے ہیں، کو ایک بلینک چیک کیوں تھما دیا۔ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

مدنا پور ضلع کے پوربا میں واقع نندی گرام حلقہ ہمیشہ بائیں بازو کی جماعتوں کا گڑھ رہا ہے۔ یہ حلقہ نندی گرام کے بلاک-1 اور بلاک- 2 پر مشتمل ہے اور یہاں دو پنچایت سمیتیاں اور 17 گرام پنچایتیں ہیں۔ یہ علاقہ صنعتی لحاظ سے مشہور ہلدیا کے قریب واقع ہے اور اس کے گرد نواح میں دریائے ہگلی اور خلیج بنگال واقع ہیں۔ نندی گرام میں 3.5 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی ہے اور یہاں رائے دہندگان کی مجموعی تعداد 2.70 لاکھ ہے، جن میں 27 فیصد مسلم اقلیت شامل ہیں۔ یہی بات انتخابات کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔

ترنمول کانگریس کے انتخابی منیجروں کو اُمید ہے کہ نندی گرام کے بلاک-1 میں رہنے والے مسلم رائے دہندگان ممتا کے حق میں ووٹ دیں گے اور اس طرح سے اُنہیں یہاں اکثریت حاصل ہوگی۔ لیکن دوسری جانب بی جے پی یا یوں کہیں کہ سُویندھو ادھیکاری، جو اس علاقے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ممتا کے خلاف انتخابی جنگ لڑنے کے لیے نندی گرام کے بلاک-2 پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ اس حلقہ میں ہندو رائے دہندگان کو لبھانے کی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

چونکہ نندی گرام گنگا ساگر کے قریب واقع ہے اور یہاں ہمیشہ ویشنو کے پرستار موجود ہوتے ہیں اور کیرت کے گیت فضا میں گونجتے رہتے ہیں۔ اس لیے سُویندو چاہتے ہیں کہ یہ گیت ای وی ایمز میں بھی اُن کے حق میں بجیں۔ یعنی اُنہیں ہندو رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہو۔

اس صورتحال کے بیچ انتخابات میں ہار جیت کی لگام بائیں بازو کے ووٹروں کے ہاتھوں میں ہے۔ جب سال 2011ء میں ممتا نے لیفٹ کو ہرادیا تھا، اُس وقت بھی بائیں بازو کو 60 ہزار ووٹ حاصل ہوئے تھے اور جب سال 2016ء میں ممتا نے اسے دوبارہ شکست دی تھی، تب بھی اسے 53 ہزار ووٹ ملے تھے۔ بالآخر سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بائیں بازو کو تملوک سیٹ، جو نندی گرام کا حصہ ہے، میں ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔

اس طرح سے نندی گرام میں ہار جیت کی چابی سی پی آئی (ایم) کی اُمیدوار میناکشی مکھرجی کے پاس ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے ممتا اور سُویندو کے درمیان ہار جیت کا انحصار اُن ہی پر ہے۔ اس لیے ممتا کو تازہ کوشش بائیں بازو پر غالب آنا ہے۔ وہ لیفٹ کے اُن رائے دہندگان کو لبھانا چاہتی ہیں، جو زعفرانی خیمے میں چلے گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نندی گرام سانحہ میں لیفٹ کو کلین چٹ دیئے جانے کی وجہ سے اسے زیادہ ووٹ حاصل ہوں گے۔

سُویندو کا ممتا بنر جی سے مقابلہ آسان نہیں۔ کیونکہ ممتا بنرجی تملوک کے سابق رکن پارلیمنٹ اور سی پی آئی ایم کے سابق لیڈر نہیں ہیں۔ ممتا اپنے داؤ پیچ کھیلنے میں ماہر ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ایک معمولی ایونٹ میں جوش و خروش کیسے پیدا کرنا ہے۔ اس لئے وہ بی جے پی کے سُویندو ادھیکاری کے مقابلے میں ایک مضبوط اُمید وار ہیں۔ اسلئے ممتا کے اس سابق ساتھی کےلئے جیت آسان نہیں۔

سی پی آئی (ایم) کو کلین چٹ دیتے ہوئے ممتا نے بنگال میں بائیں بازو کو راحت پہنچائی ہے۔ کیا وہ اس طرح سے ایک آپشن کھلا رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اگر بنگال میں منقسم مینڈیٹ سامنے آیا تو اُس صورت میں اسے لیفٹ کی جانب سے باہری سپورٹ حاصل ہوسکے؟ کیا ممتا اپنے مخالفین کو اس طرح سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوں گی؟ نندی گرام ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پر اسرار بنتا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ نندی گرام میں پولنگ یکم اپریل کو ہوگی۔

کیا ممتا بی جے پی کو کمزور کرنے کے لیے بائیں بازو کو راحت پہنچارہی ہیں؟ پیش ہے ای ٹی وی بھارت کے نیوز کارڈینیٹر دپانکر بوس کی رپورٹ:

مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سب سے پہلے دو آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئے ہیں۔ ایک ٹیپ میں بی جے پی لیڈر مُکل رائے جو اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی جانب سے بطور ایک اُمیدوار بھی کھڑے ہیں، پارٹی کے ایک اور کارکن سے بات چیت کرتے ہوئے سنے جاسکتے ہیں۔ اس بات چیت میں مُکل رائے بوتھ ایجنٹس کی تعیناتی کے حوالے سے تبدیل شدہ قوانین کے معاملے پر الیکشن کمیشن سے رابطہ کرنے کی بات کرتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔

وہیں، دوسرے ٹیپ میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کو مدناپور ضلع کے ایک بی جے پی کارکن سے بات کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔ ممتا بی جے پی لیڈر سے انتخابات کے دوران اُن کی (ممتا کی) پارٹی کو مدد کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ گو کہ ان دونوں آڈیو ٹیپس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے، تاہم ان کے منظر عام پر آنے سے ہلچل مچ گئی ہے۔

ان واقعات کے بعد سب سے بڑا واقعہ یہ سامنے آیا کہ ممتا بنرجی نے 28 مارچ کو نندی گرام کے رائے پارا علاقے میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے 'باپ-بیٹے' یعنی سِسر ادھیکاری اور اُن کے بیٹے سُویندو ادھیکاری کو 14 مارچ 2007 کو نندی گرام میں ہوئی ہلاکتوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔ اس سانحہ میں 14 افراد مارے گئے تھے۔ در اصل یہاں انڈونیشیا کے ایک تجارتی گروپ، سلیم گروپ کی جانب سے پیٹرولیم، کیمیکل اور فارماسیوٹیکل صنعتی کارخانے کھولنے کے لیے حکومت زمینیں تحویل میں لے رہی تھی۔ اس کی مخالفت میں مقامی لوگ احتجاج کر رہے تھے۔

منظر عام پر آنے والی ٹیپ میں ممتا کو یہ باتیں سُویندو، جو ایک زمانے میں اُن کے قریبی ساتھی ہوا کرتے تھے، کو بتاتے ہوئے سُنا جاسکتا ہے۔ ممتا اُن سے کہہ رہی ہیں، ’’ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ جنہوں نے فائر کیا تھا، وہ چپل پہنے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے ہوائی چپل پہن رکھے تھے۔ اب کی بار یہ لوگ دوبارہ پریشان کن صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ میں چیلنج کرتی ہوں کہ باپ بیٹے کی اجازت کے بغیر پولیس اُس دن نندی گرام میں گھسنے کی ہمت نہیں کر پاتی۔ چلو ٹھیک ہے، میں نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا، کیونکہ میں بدرولک (شریف) ہوں۔‘‘

ممتا کے یہ الفاظ منظر عام پر آجانے کے ساتھ ہی بڑے پیمانے پر ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔ سوشل میڈیا اور مختلف میڈیا آوٹ لیٹس میں افراتفری کا ماحول مچ گیا اور یہ پیغام پھیلنے لگا کہ بدھادیب بٹاچاریہ جی کی دھوتی پر لگے خون کے دھبے بالآخر کسی اور نے نہیں بلکہ ممتا بنرجی نے ہی صاف کیے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آخر 14 سال بعد اچانک ممتا نے یہ بات کُھلے عام کیوں کہہ دی؟ آخر اُنہیں یہ بات کہنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنے چار دہائیوں پر محیط اپنے سیاسی کیرئر میں سب سے اہم انتخاب لڑنے جارہی ہیں؟ اُس نے نندی گرام کے واقعہ کا ذکر چھیڑ کر سی پی آئی (ایم)، جس کے ساتھ ممتا نے ماضی میں دو دو ہاتھ کیے ہیں، کو ایک بلینک چیک کیوں تھما دیا۔ ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔

مدنا پور ضلع کے پوربا میں واقع نندی گرام حلقہ ہمیشہ بائیں بازو کی جماعتوں کا گڑھ رہا ہے۔ یہ حلقہ نندی گرام کے بلاک-1 اور بلاک- 2 پر مشتمل ہے اور یہاں دو پنچایت سمیتیاں اور 17 گرام پنچایتیں ہیں۔ یہ علاقہ صنعتی لحاظ سے مشہور ہلدیا کے قریب واقع ہے اور اس کے گرد نواح میں دریائے ہگلی اور خلیج بنگال واقع ہیں۔ نندی گرام میں 3.5 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی ہے اور یہاں رائے دہندگان کی مجموعی تعداد 2.70 لاکھ ہے، جن میں 27 فیصد مسلم اقلیت شامل ہیں۔ یہی بات انتخابات کے حوالے سے اہمیت کی حامل ہے۔

ترنمول کانگریس کے انتخابی منیجروں کو اُمید ہے کہ نندی گرام کے بلاک-1 میں رہنے والے مسلم رائے دہندگان ممتا کے حق میں ووٹ دیں گے اور اس طرح سے اُنہیں یہاں اکثریت حاصل ہوگی۔ لیکن دوسری جانب بی جے پی یا یوں کہیں کہ سُویندھو ادھیکاری، جو اس علاقے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ممتا کے خلاف انتخابی جنگ لڑنے کے لیے نندی گرام کے بلاک-2 پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ اس حلقہ میں ہندو رائے دہندگان کو لبھانے کی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں۔

چونکہ نندی گرام گنگا ساگر کے قریب واقع ہے اور یہاں ہمیشہ ویشنو کے پرستار موجود ہوتے ہیں اور کیرت کے گیت فضا میں گونجتے رہتے ہیں۔ اس لیے سُویندو چاہتے ہیں کہ یہ گیت ای وی ایمز میں بھی اُن کے حق میں بجیں۔ یعنی اُنہیں ہندو رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہو۔

اس صورتحال کے بیچ انتخابات میں ہار جیت کی لگام بائیں بازو کے ووٹروں کے ہاتھوں میں ہے۔ جب سال 2011ء میں ممتا نے لیفٹ کو ہرادیا تھا، اُس وقت بھی بائیں بازو کو 60 ہزار ووٹ حاصل ہوئے تھے اور جب سال 2016ء میں ممتا نے اسے دوبارہ شکست دی تھی، تب بھی اسے 53 ہزار ووٹ ملے تھے۔ بالآخر سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بائیں بازو کو تملوک سیٹ، جو نندی گرام کا حصہ ہے، میں ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ حاصل ہوئے۔

اس طرح سے نندی گرام میں ہار جیت کی چابی سی پی آئی (ایم) کی اُمیدوار میناکشی مکھرجی کے پاس ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے ممتا اور سُویندو کے درمیان ہار جیت کا انحصار اُن ہی پر ہے۔ اس لیے ممتا کو تازہ کوشش بائیں بازو پر غالب آنا ہے۔ وہ لیفٹ کے اُن رائے دہندگان کو لبھانا چاہتی ہیں، جو زعفرانی خیمے میں چلے گئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نندی گرام سانحہ میں لیفٹ کو کلین چٹ دیئے جانے کی وجہ سے اسے زیادہ ووٹ حاصل ہوں گے۔

سُویندو کا ممتا بنر جی سے مقابلہ آسان نہیں۔ کیونکہ ممتا بنرجی تملوک کے سابق رکن پارلیمنٹ اور سی پی آئی ایم کے سابق لیڈر نہیں ہیں۔ ممتا اپنے داؤ پیچ کھیلنے میں ماہر ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ایک معمولی ایونٹ میں جوش و خروش کیسے پیدا کرنا ہے۔ اس لئے وہ بی جے پی کے سُویندو ادھیکاری کے مقابلے میں ایک مضبوط اُمید وار ہیں۔ اسلئے ممتا کے اس سابق ساتھی کےلئے جیت آسان نہیں۔

سی پی آئی (ایم) کو کلین چٹ دیتے ہوئے ممتا نے بنگال میں بائیں بازو کو راحت پہنچائی ہے۔ کیا وہ اس طرح سے ایک آپشن کھلا رکھنا چاہتی ہیں تاکہ اگر بنگال میں منقسم مینڈیٹ سامنے آیا تو اُس صورت میں اسے لیفٹ کی جانب سے باہری سپورٹ حاصل ہوسکے؟ کیا ممتا اپنے مخالفین کو اس طرح سے بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوں گی؟ نندی گرام ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پر اسرار بنتا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ نندی گرام میں پولنگ یکم اپریل کو ہوگی۔

Last Updated : Mar 31, 2021, 1:54 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.