مولانا ابوالکلام آزاد کی131ویں یوم پیدائش کے موقع پر کولکاتا کے تاریخی ادارہ مسلم انسٹیٹیوٹ میں بعنوان "مولانا آزاد ایک عہد ساز شخصیت " پر توسیعی خطبہ کے لئے اردو کے بڑے شاعر چکبشت لکھنوی کے نبیرہ راج کمار کاک کو مدعو کیا گیا تھا ۔
راج کمار کاک نے مولانا ابوالکلام آزاد کے مذہبی تحریروں کے حوالے سے گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی نے جو قرآن کی تفسیر لکھی ہے ۔وہ دوسرے تفسیروں سے اس معنوں میں بہتر ہے کہ کیونکہ اس میں عربی الفاظ کا مناسب نعم البدل پیش کیا گیا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی صلاحیتوں کا اس طرح دوسروں سے اعتراف کرایا کہ ان کو آزاد ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی مولانا ابوالکلام آزاد وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والی نئی چیزوں سے بھی بخوبی واقف تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں اپنے اخبارات "الہلال اور ابلاغ "کی اشاعت کے لئے اس زمانے کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا تاکہ قاری تک خبریں موثر انداز میں پہنچے۔
انہوں نے کہا مولانا ابوالکلام آزاد نے آزادی ہند اور ہندو مسلم اتحاد کے لئے جو کام کیا ۔
اس کی آج تک مثال نہیں ملتی۔راج کمار کاک نے ای ٹی وی بھارت کو خو بتایا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت ایسی تھی جس کا کوئی ثانی کوئی نہیں وہ بیک وقت نظر نگار ،شاعر سیاستداں ،اسکالر ایک بہترین شخص تھے اور تعجب کی بات ہے کہ انہوں نے روایتی تعلیم بھی حاصل نہیں کی تھی ۔
انہوں بحیثیت وزیر تعلیم جو ادارے قائم کئے ان کی ضرورت انہوں نے اس وقت محسوس کر لی تھی جیسے یو جی سی ،پلٹ کہا اکاڈمی، ساہتیہ اکاڈمی انسٹیٹیوٹ آف ایشیین اسٹڈیز اور کونسل فار اگریکلچر ان کی دور اندیشی کی مثال نہیں ملتی اور وہ اس طرح منفرد تھے کہ وہ سیاست داں تو تھے۔
ایک سچے اور عملی مسلمان تھے انہوں نے ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود ورثے میں ان کے پاس کچھ نہیں تھا جب وجہ اس دنیا سے کوچ کر گئے تو ترکہ میں صرف چالیس ہزار کتابیں رہ گئیں تھی انہوں اپنی زندگی میں کبھی ذاتی مکان تک نہیں بنایا ان کا اصل اور سب سے بڑا ورثہ یہ ملک ہندوستان ہے۔