ETV Bharat / state

کولکاتا: نعمت اللہ شاہ مسجد، مذہبی رواداری کا گہوارہ

330 برس قدیم شہر کولکاتا مذہبی روادری کا ہمیشہ سے ہی گہوارہ رہا ہے۔ آج بھی یہاں بین مذاہب کے لوگ امن کے ساتھ رہتے ہیں۔ کولکاتا کی نعمت اللہ شاہ مسجد بھی شہر کی مذہبی روادری کی روایت کی ایک مثال ہے۔

niyamatulla shah mosque
نعمت اللہ شاہ مسجد
author img

By

Published : Sep 19, 2020, 4:08 PM IST

کولکاتا شہر کے ایک غیر مسلم علاقے میں موجود نعمت اللہ شاہ مسجد مذہبی رواداری کی علامت کے طور پر آج بھی پوری عظمت کے ساتھ 236 برس بعد بھی قائم ہے۔ 1784 میں اس مسجد کو نعمت اللہ شاہ نام کے ایک زمیندار نے قائم کروایا تھا۔ 86/1 نیم تلہ گھاٹ اسٹریٹ میں موجود یہ مسجد کے متعلق کولکاتا زیادہ تر لوگوں معلوم نہیں ہے۔

دیکھیں ویڈیو

جدید کولکاتا شہر کی بنیاد آج سے 330 برس قبل جاب چارنک نے کالی کت،گوبند پور اور سوتانیتی کو تین گاؤں کے انضمام سے عمل آیا تھا۔

کولکاتا شہر مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے وسیع تر دامن میں جگہ دیتا رہا ہے۔ غیر منقسم بنگال میں مسلمانوں کی بھی بڑی آبادی موجود تھی۔

جب جدید کلکتہ شہر کی بنیاد جاب چارنک نے 1786 میں رکھی تو اس کے بعد کلکتہ شہر آہستہ آہستہ ایک اہم تجارتی مرکز بن گئی۔

مغل دور میں بنگال کا دارالسلطنت مرشدآباد تھا، لیکن 1722 میں برٹش حکومت نے کلکتہ شہر کو بھارت کی دارالسلطنت بنانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد وارین ہیشٹنگ کو بنگال کا پہلا گورنر مقرر کیا گیا۔ وارین ہیشٹنگ نے تمام اہم ترین دفاتر مرشدآباد سے کلکتہ منتقل کر دیا۔ 1911 تک کلکتہ شہر بھارت کی دارالحکومت رہا۔ اس درمیان کلکتہ شہر نے کئی تبدیلیاں دیکھیں۔ اس درمیان یہ شہر کئی مذاہب کے ماننے والوں کا ہمیشہ کے لیے مسکن بن گیا۔ مختلف مذاہب کے ثقافت و تہذیب اس شہر کا حصہ بن گئیں۔

niyamatulla shah mosque
نعمت اللہ شاہ مسجد

مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی نے اس شہر کو اپنے مسکن بنایا۔ مسلمانوں نے اس شہر میں اپنی عبادت گاہیں بھی قائم کی۔ کولکاتا شہر میں پانچ سو سے زائد مساجد ہیں۔ کئی ایسی مساجد بھی ہیں جن کے آس پاس مسلم آبادی نہیں ہے۔ اس کی وجہ فسادات ہیں، جس کی وجہ سے آبادی منتقل ہو گئی۔

شمالی کولکاتا کے 86/1 نیم تلہ گھاٹ اسٹریٹ جو نیم تلہ شمسان گھٹ کے کے قریب ہے۔ کبھی مسلمانوں کی آبادی ہوا کرتی تھی، لیکن اس علاقے میں ایک ہی مسلم خاندان رہتا ہے۔1784 میں نعمت اللہ شاہ مسجد کی بنیاد زمیندار نعمت اللہ شاہ نے رکھی تھی۔جو ایک تاجر بھی تھے۔ اس زمانے میں پانی کے جہاز کے ذریعے ہی تجارت سامان لائے جاتے تھے۔ اس علاقے میں آج بھی نعمت اللہ شاہ کے نام سے گھاٹ،فائر اسٹیشن، اور راستے موجود ہے۔

انہوں نے اپنے مزدوروں کے لیے یہ مسجد قائم کی تھی۔ کولکاتا کے راجہ بازار سے قریب یہ علاقہ اب پورے طور سے غیر مسلموں کی گھنی آبادی والا علاقہ ہے۔ ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ مانک تلہ، نیم تلہ اور پھول بگان علاقے کے مسلمان ہی بعد میں راجہ بازار علاقے میں بس گئے۔ مسجد اور اس کی زمین وقف کر دی گئی تھی۔

نعمت اللہ شاہ مسجد کی زمہ داری رمضان علی نام کے ایک شخص کو دی تھی۔ مسجد کے قریب ایک راستے کا نام رمضان علی لین ہے۔ مسجد ملکیت 13 کٹھہ زمین ہے۔ جس میں ساڑھے پانچ کٹھے زمین پر مسجد قائم ہے۔ جبکہ باقی زمین پر کرایے دار اور دکاندار ہیں اور کچھ زمین پر غیر قانونی دخل ہو چکا ہے۔ مسجد 9 فٹ اونچے چبوترے پر قائم ہے۔ جس کے نیچے اب دکانیں بن چکی ہیں۔ چبوترے کے نیچے ایک تہ خانہ ہے۔ جس کا راستہ اب بند کر دیا گیا ہے، جو گھاٹ تک جاتا تھا۔

مسجد کے 36 دکانیں ہیں جن میں دو صرف مسلمانوں کا ہے باقی غیر مسلموں کا ہے۔ کئی کرایے دار ہیں سب کے سب غیر مسلم ہیں۔ مسجد کے ایک طرف قدیم کالی مندر ہے تو ایک طرف شیو کا مندر ہے۔ مسجد کے 236 برس کی تاریخ میں غیر مسلموں کا علاقہ ہونے کا با وجود کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ علاقے میں رہنے والے واحد مسلم خاندان کے فرد شیخ غفران نے بتایا کہ یہاں کے غیر مسلم مسجد کا بہت احترام کرتے ہیں، کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ مسجد طرز تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجد میں 9 گنبد ہیں۔ چار مناریں ہیں۔ مسجد باہری حصوں میں چبوترے میں محرابیں بنی ہوئی تھیں جن کے نیچے اب دکانیں بن چکی ہیں۔ اس لیے دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ مسجد کے اندر گنبد کے ساتھ بنی محرابیں طرز تعمیر کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔

محرابیں اس طرح بنائی گئی ہیں کہ آواز کسی مشین کی مدد کے بغیر بھی سنائی دے سکیں۔ گنبدوں میں ٹیراکوٹا کی نقش نگاری بھی ہے۔ کئی بار مرمت کی وجہ سے کچھ چیزوں اصل شکل کچھ حد تک باقی نہیں رہیں۔ مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسجد کی دیکھ ریکھ میں برسوں سے یہاں کے غیر مسلم کرتے رہیں۔ مسجد کے امام خورشید رضا کے مطابق غیر مسلموں کے علاقے میں ہونے کے باوجود کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 1992 میں بابری مسجد انہدام کے بعد کچھ شرپسند مسجد پر حملہ کرنے پہنچے تھے، لیکن مسجد کے کرایے داروں اور دکانداروں نے مزاحمت کی تھی اور مسجد کو تحفظ فراہم کیا تھا۔

مسجد میں برسوں سے کوئی کمیٹی نہیں تھی، لیکن کچھ دنوں قبل ہی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔کیونکہ کئی لوگ مسجد کا متولی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور مسجد کی ملکیت میں بڑے پیمانے پر خرد برد بھی کیا گیا ہے۔

niyamatulla shah mosque
نعمت اللہ شاہ مسجد

دکانداروں سے ملنے والا کرایہ مسجد کے اخراجات کے لیے خرچ نہیں کئے جاتے ہیں۔ چند لوگ جو متولی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ساری آمدنی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ نئی تشکیل شدہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری مرتظی حسین کے مطابق مسجد کی ملکیت اور اس کے اصل متولی کے متعلق وقف بورڈ سے رابطہ کیا گیا ہے۔

اس پر قانون کارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے تاکہ کچھ بے ایمان جو مسجد کی ملکیت فروخت کر رہے ہیں، ان پر قدغن لگایا جا سکے۔ انہوں نے کہا نعمت اللہ شاہ نے مسجد کے دیکھ ریکھ کے لیے رمضان علی نام کے ایک شخص کو مقرر کیا تھا، جو لا ولد تھے۔ لیکن کچھ لوگ خود کو رمضان علی کی اولاد بتا کر متولی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مسجد کی صاف صفائی اور دوسرے کام میں یہاں کے کئی غیر مسلموں برسوں سے مسجد کی خدمت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:

ماہ صفر کو منحوس سمجھنا غیرشرعی عمل

مسجد کے ایک کرایے دار سادھن داس نے بتایا کہ وہ جب سے یہاں ہیں وہ مسجد کی صفائی کرتے ہیں۔ مسجد کے ڈرین بھی دھوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہماری مسجد ہیں اور کبھی مسجد پر کوئی آنچ نہیں آئی، ہم سب کو مسجد سے بہت عقیدت ہے کبھی بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

کولکاتا شہر کے ایک غیر مسلم علاقے میں موجود نعمت اللہ شاہ مسجد مذہبی رواداری کی علامت کے طور پر آج بھی پوری عظمت کے ساتھ 236 برس بعد بھی قائم ہے۔ 1784 میں اس مسجد کو نعمت اللہ شاہ نام کے ایک زمیندار نے قائم کروایا تھا۔ 86/1 نیم تلہ گھاٹ اسٹریٹ میں موجود یہ مسجد کے متعلق کولکاتا زیادہ تر لوگوں معلوم نہیں ہے۔

دیکھیں ویڈیو

جدید کولکاتا شہر کی بنیاد آج سے 330 برس قبل جاب چارنک نے کالی کت،گوبند پور اور سوتانیتی کو تین گاؤں کے انضمام سے عمل آیا تھا۔

کولکاتا شہر مختلف مذاہب کے لوگوں کو اپنے وسیع تر دامن میں جگہ دیتا رہا ہے۔ غیر منقسم بنگال میں مسلمانوں کی بھی بڑی آبادی موجود تھی۔

جب جدید کلکتہ شہر کی بنیاد جاب چارنک نے 1786 میں رکھی تو اس کے بعد کلکتہ شہر آہستہ آہستہ ایک اہم تجارتی مرکز بن گئی۔

مغل دور میں بنگال کا دارالسلطنت مرشدآباد تھا، لیکن 1722 میں برٹش حکومت نے کلکتہ شہر کو بھارت کی دارالسلطنت بنانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد وارین ہیشٹنگ کو بنگال کا پہلا گورنر مقرر کیا گیا۔ وارین ہیشٹنگ نے تمام اہم ترین دفاتر مرشدآباد سے کلکتہ منتقل کر دیا۔ 1911 تک کلکتہ شہر بھارت کی دارالحکومت رہا۔ اس درمیان کلکتہ شہر نے کئی تبدیلیاں دیکھیں۔ اس درمیان یہ شہر کئی مذاہب کے ماننے والوں کا ہمیشہ کے لیے مسکن بن گیا۔ مختلف مذاہب کے ثقافت و تہذیب اس شہر کا حصہ بن گئیں۔

niyamatulla shah mosque
نعمت اللہ شاہ مسجد

مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی نے اس شہر کو اپنے مسکن بنایا۔ مسلمانوں نے اس شہر میں اپنی عبادت گاہیں بھی قائم کی۔ کولکاتا شہر میں پانچ سو سے زائد مساجد ہیں۔ کئی ایسی مساجد بھی ہیں جن کے آس پاس مسلم آبادی نہیں ہے۔ اس کی وجہ فسادات ہیں، جس کی وجہ سے آبادی منتقل ہو گئی۔

شمالی کولکاتا کے 86/1 نیم تلہ گھاٹ اسٹریٹ جو نیم تلہ شمسان گھٹ کے کے قریب ہے۔ کبھی مسلمانوں کی آبادی ہوا کرتی تھی، لیکن اس علاقے میں ایک ہی مسلم خاندان رہتا ہے۔1784 میں نعمت اللہ شاہ مسجد کی بنیاد زمیندار نعمت اللہ شاہ نے رکھی تھی۔جو ایک تاجر بھی تھے۔ اس زمانے میں پانی کے جہاز کے ذریعے ہی تجارت سامان لائے جاتے تھے۔ اس علاقے میں آج بھی نعمت اللہ شاہ کے نام سے گھاٹ،فائر اسٹیشن، اور راستے موجود ہے۔

انہوں نے اپنے مزدوروں کے لیے یہ مسجد قائم کی تھی۔ کولکاتا کے راجہ بازار سے قریب یہ علاقہ اب پورے طور سے غیر مسلموں کی گھنی آبادی والا علاقہ ہے۔ ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ مانک تلہ، نیم تلہ اور پھول بگان علاقے کے مسلمان ہی بعد میں راجہ بازار علاقے میں بس گئے۔ مسجد اور اس کی زمین وقف کر دی گئی تھی۔

نعمت اللہ شاہ مسجد کی زمہ داری رمضان علی نام کے ایک شخص کو دی تھی۔ مسجد کے قریب ایک راستے کا نام رمضان علی لین ہے۔ مسجد ملکیت 13 کٹھہ زمین ہے۔ جس میں ساڑھے پانچ کٹھے زمین پر مسجد قائم ہے۔ جبکہ باقی زمین پر کرایے دار اور دکاندار ہیں اور کچھ زمین پر غیر قانونی دخل ہو چکا ہے۔ مسجد 9 فٹ اونچے چبوترے پر قائم ہے۔ جس کے نیچے اب دکانیں بن چکی ہیں۔ چبوترے کے نیچے ایک تہ خانہ ہے۔ جس کا راستہ اب بند کر دیا گیا ہے، جو گھاٹ تک جاتا تھا۔

مسجد کے 36 دکانیں ہیں جن میں دو صرف مسلمانوں کا ہے باقی غیر مسلموں کا ہے۔ کئی کرایے دار ہیں سب کے سب غیر مسلم ہیں۔ مسجد کے ایک طرف قدیم کالی مندر ہے تو ایک طرف شیو کا مندر ہے۔ مسجد کے 236 برس کی تاریخ میں غیر مسلموں کا علاقہ ہونے کا با وجود کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ علاقے میں رہنے والے واحد مسلم خاندان کے فرد شیخ غفران نے بتایا کہ یہاں کے غیر مسلم مسجد کا بہت احترام کرتے ہیں، کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ مسجد طرز تعمیر کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ مسجد میں 9 گنبد ہیں۔ چار مناریں ہیں۔ مسجد باہری حصوں میں چبوترے میں محرابیں بنی ہوئی تھیں جن کے نیچے اب دکانیں بن چکی ہیں۔ اس لیے دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ مسجد کے اندر گنبد کے ساتھ بنی محرابیں طرز تعمیر کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں۔

محرابیں اس طرح بنائی گئی ہیں کہ آواز کسی مشین کی مدد کے بغیر بھی سنائی دے سکیں۔ گنبدوں میں ٹیراکوٹا کی نقش نگاری بھی ہے۔ کئی بار مرمت کی وجہ سے کچھ چیزوں اصل شکل کچھ حد تک باقی نہیں رہیں۔ مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسجد کی دیکھ ریکھ میں برسوں سے یہاں کے غیر مسلم کرتے رہیں۔ مسجد کے امام خورشید رضا کے مطابق غیر مسلموں کے علاقے میں ہونے کے باوجود کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 1992 میں بابری مسجد انہدام کے بعد کچھ شرپسند مسجد پر حملہ کرنے پہنچے تھے، لیکن مسجد کے کرایے داروں اور دکانداروں نے مزاحمت کی تھی اور مسجد کو تحفظ فراہم کیا تھا۔

مسجد میں برسوں سے کوئی کمیٹی نہیں تھی، لیکن کچھ دنوں قبل ہی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔کیونکہ کئی لوگ مسجد کا متولی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور مسجد کی ملکیت میں بڑے پیمانے پر خرد برد بھی کیا گیا ہے۔

niyamatulla shah mosque
نعمت اللہ شاہ مسجد

دکانداروں سے ملنے والا کرایہ مسجد کے اخراجات کے لیے خرچ نہیں کئے جاتے ہیں۔ چند لوگ جو متولی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ساری آمدنی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ نئی تشکیل شدہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری مرتظی حسین کے مطابق مسجد کی ملکیت اور اس کے اصل متولی کے متعلق وقف بورڈ سے رابطہ کیا گیا ہے۔

اس پر قانون کارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے تاکہ کچھ بے ایمان جو مسجد کی ملکیت فروخت کر رہے ہیں، ان پر قدغن لگایا جا سکے۔ انہوں نے کہا نعمت اللہ شاہ نے مسجد کے دیکھ ریکھ کے لیے رمضان علی نام کے ایک شخص کو مقرر کیا تھا، جو لا ولد تھے۔ لیکن کچھ لوگ خود کو رمضان علی کی اولاد بتا کر متولی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ مسجد کی صاف صفائی اور دوسرے کام میں یہاں کے کئی غیر مسلموں برسوں سے مسجد کی خدمت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:

ماہ صفر کو منحوس سمجھنا غیرشرعی عمل

مسجد کے ایک کرایے دار سادھن داس نے بتایا کہ وہ جب سے یہاں ہیں وہ مسجد کی صفائی کرتے ہیں۔ مسجد کے ڈرین بھی دھوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہماری مسجد ہیں اور کبھی مسجد پر کوئی آنچ نہیں آئی، ہم سب کو مسجد سے بہت عقیدت ہے کبھی بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.