مغربی بنگال کے جنوبی 24 پرگنہ کے میں تاریخی شہر میٹیابرج کے سابق کاؤنسلر اور سماجی کارکن امین انصاری نے کہا کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جس پر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی لیکن بلقیس بانو کے مجرموں کو گجرات حکومت کی جانب سے عام معافی دیئے جانے پر افسوس ہوا۔ Minority leaders and lawyers reaction on bilqis bano case
انہوں نے کہا کہ امید تھی کہ بلقیس بانو کے جنسی زیادتی کرنے والے تمام مجرم سلاخوں کے پیچھے رہے گے۔چند برسوں تک رہے بھی لیکن بی جے پی کی قیادت والی گجرات کی حکومت نے ہماری سوچ کے برعکس کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی کم ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گجرات حکومت کے فیصلے سے عام لوگوں اور مظلوموں کو صدمہ پہنچا ہے۔
دوسری طرف ایڈوکیٹ اور پروفیسر نوشاد انور نے کہا کہ گجرات حکومت کے فیصلے پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ مرکز میں اقلیتی مخالف حکومت سے اس سے زیادہ امید نہیں کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا بھارتی قوانین میں ریاستی حکومت کے پاس سزا یافتہ مجرموں کو یومِ آزادی کے موقع پر رہائی دی جاتی ہے لیکن ایسے مجرموں کو رہائی نہیں دی جاتی جو آبروریزی،خواتین كے جنسی زیادتی یا پھر قتل معاملے میں ملوث ہو
ان کا کہنا ہے کہ عام لوگوں،دانشور طبقہ اور سیاسی رہنماؤں کو گجرات حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کرنا چاہیے۔اس کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔
سی پی آئی ایم کے سرکردہ رہنما اور رہنما صادق اختر نے کہا کہ گجرات حکومت کے فیصلے سے مایوسی ہوئی ۔ذمہ دارارن كواس كے خلاف قانونی چارہ جوئی کے راستے کھلے ہیں ۔لوگوں کو اس کے خلاف سڑکوں پر اترآنا چاہئیے۔
یہ بھی پڑھیں:Bilkis Bano Rape Case بلقیس بانو کیس میں قصورواروں کی رہائی کے خلاف کولکاتا میں احتجاج
انہوں نے کہا کہ کانگریس اور ترنمول کانگریس کی بلقیس بانو کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے میں ملوث مجرموں کی رہائی پر خاموشی پر سوال اٹھائے جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو تمام تر شعبے ترقی دینے کا دعویٰ کرنے والی وزیر اعلیٰ اور ان کی ترنمول کانگریس کی خاموشی پر کئی سوال کھڑا ہو رہا ہے لیکن کس کو کیا بولے گا۔