سنہ 2008 میں ملی الامین کالج کو اقلیتی درجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن چار اساتذہ کے درمیان جھگڑا کالج کے لیے خطرناک ثابت ہوا ۔
بیشاکھی بنرجی اور شبینہ نشاظ عمر کے درمیان ٹیچر انچارج بنے کے معاملے نے ایسا طول پکڑا ۔ اس وقت کمیٹی کے صدر سلطان احمد نے اقلیتی ادارہ ہونے کے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تین ٹیچروں بیشاکھی بنرجی پرون کور اور زرینہ زرین کو معطل کردیا ۔
اس کے بعد معاملہ کلکتہ ہائی کورٹ پہنچ گیا اور کالج کے اقلیتی کردار پر معاملہ اٹھایا گیا اور 2011 میں ممتا بنرجی نے عدالت میں و حلف نامہ دیا کہ ملی الامین کالج اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔
عدالت نے تینوں معطل ٹیچروں کو بحال کرنے کا حکم دیا. جس کے بعد بیشاکھی بنرجی کو کالج کا ٹیچر انچارج منتخب کیا گیا لیکن کالج کی ایک اور ٹیچر شبینہ نشاط عمر سے اور بیشاکھی بنرجی کا تنازعہ چلتا رہا اور جس کا خمیازہ طلباء کو اٹھانا پڑا ۔
گزشتہ کل سے سوشل میڈیا پر شبینہ نشط عمر نے ٹیچر انچارج بیشاکھی بنرجی پر حراساں کرنے اور مذہبی تعصب برتنے کا الزام لگایا ہے۔
اس کے رد عمل میں آج ملی الامین کالج کی ٹیچر انچارج بیشاکھی نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی ۔ شبینہ نشاط پر کالج میں بدنظمی پھیلانے غیر تدریسی عملہ کے ساتھ بد تمیزی کرنا بغیر اطلاع کئے کالج نہ آنا کالج کے حاضری رجسڑڈ سے چھیڑ چھاڑ کرنا اور بے بنیاد الزامات لگانا کلاس سے غیر حاضر رہنا۔
بیشاکھی بنرجی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ شبینہ نشاط نے سوشل میڈیا پر جو ویڈیو بھیجا ہے ۔وہ سارے بے بنیاد ہیں۔ اسی کے خلاف میں نے آج یہ پریس کانفرنس بلایا تھا کیونکہ اس فیس بک پوسٹ میں انہوں نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور وزیر تعلیم پارتھو چٹرجی کو ٹیگ کیا ہے لیکن ان کے طرف سے اس پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ ان کی اسی خاموشی کے خلاف میرا احتجاج ہے ۔
انہوں نے کالج کے اقلیتی کردار کے سوال پر کیا کہ اس وقت بھی میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں تھا اور آج بھی میرا سیاسی اثر رسوخ نہیں ہے ہم لوگ کام کرنےوالے ہیں اور کالج میں کام کرنے جاتے ہیں ہمیں سیاست کرنے کی کیا ضرورت ہے کالج کے اقلیتی کردار سے مجھے جوئی پریشانی نہیں ہے