مغربی بنگال کی تاریخ میں سُندربن کے منگرو جنگل (mangroov forest)، رائل بنگال ٹائیگر، واجد علی شاہ کی نگری میٹیا بُرج، شیر میسور ٹیپو سلطان مسجد، ایڈن گارڈن، ہوڑہ برج، سراج الدولہ کا ہزار دواری محل، شہید مینار، ہاتھ رکشہ اور ٹرام ( tramcar) قابل ذکر ہے۔
ان تاریخی اثاثے میں ٹرام (tramcar) بھارت میں برطانوی دور حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کی عمدہ مثال ہے جو قابل ذکر ہے اور اس کے بغیر مغربی بنگال کی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔
بھارت میں ٹرام کی تاریخ کی شروعات انگلینڈ سے شروع ہوتی ہے اور کلکتہ پہنچتی ہے۔ 24 فروری سنہ 1873 میں برطانوی حکومت نے مغربی بنگال کی سرزمین پر پہلی مرتبہ ٹرام کو متعارف کرایا جو سستی اور آسان سواری تھی۔
24 فروری 1873 میں سیالدہ، بہو بازار اسٹریٹ، ڈلہوزی اسکوائر، اسٹرانڈ روڈ سے آرمینین گھاٹ کے درمیان 3.5کیلو میٹر تک گھوڑوں کے ذریعہ ٹرام کھینچنے کا سلسلہ شروع ہوا اس کے لیے افغانستان کے کابل سے گھوڑوں کو لایا گیا تھا۔
برطانوی حکومت کے لئے کولکاتا میں گھوڑوں کے ذریعہ ٹرام چلانے کا منصوبہ بھاری پڑنے لگا۔ برطانوی حکومت بہت جلد ہی اس کے متبادل کی تلاش میں مصروف ہوگئی۔
یکم نومبر سنہ 1880 میں وائسرائے لارڈ ریپن نے ٹرام کے نئے روٹ کا افتتاح کیا اور 22 دسمبر سنہ 1980 میں لندن میں کلکتہ ٹرامس وے کمپنی کا رجسٹریشن کرایا گیا۔ اس دوران ممبئی، دہلی اور چنئی میں چلنے والی ٹرام بند ہوچکی تھی۔ لیکن تمام تر پریشانیوں کے باوجود کولکاتا میں اس کا سلسلہ جاری رہا۔
تقریباً 29 برس بعد سنہ 1901 میں برطانوی حکومت نے کلکتہ کی سرزمین پر اسٹیم سے چلنے والی ٹرام کو متعارف کرایا۔ یہ ٹرام سیالدہ سے لال بازار ہوتے ہوئے خضرپور جاتی تھی۔
کولکاتا میں اسٹیم سے چلنے والی ٹرام نہ صرف بھارت بلکہ پورے ایشیا میں اس نوعیت کی پہلی گاڑی و سواری (ٹرانسپورٹ) تھی۔
انگریزوں کا یہ منصوبہ منافع بخش ثابت ہوا اور 16 نئے روٹ بنائے گئے اسی سال خضرپور ٹرام ڈیپو کی قیام عمل میں آیا۔
اس کے دس سال بعد 1910 میں راجہ بازار ٹرام ڈیپو، اس کے 15 سال بعد 1925 میں نونا پوکھر ٹرام ڈیپو، 1941 میں راجہ بازار ٹرام ڈیپو کے روٹ کو وسیع کرکے غالب اسٹریٹ، شیام بازار جنکشن، سرکولر روڈ روٹ بنایا گیا۔
اس کے دو سال بعد ہوڑہ برج روٹ کا افتتاح کیا گیا جو کلکتہ کو ہوڑہ ضلع سے جوڑا اور اس کی پہنچ ہگلی ہوگئی۔ اسی سال پارک سرکس، گڑیا ہاٹ اور بالی گنج ڈیپو قائم کئے گئے۔
دیکھتے ہی دیکھتے کلکتہ ٹرام نہ مغربی بنگال بلکہ پورے بھارت کی شان بن گئی۔ یوروپ میں بھی کولکاتا کو ٹرام کی وجہ سے مقبولیت اور منفرد شناخت ملی۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
برطانوی حکومت نے ٹرام کو کمپنی میں تبدیل کرتے ہوئے کلکتہ ٹرامس وے کمپنی پرائیویٹ لمٹیڈ (calcutta tramsway co private limited) میں بدل دیا جس نے دن دگنی رات چوگنی کامیابی و ترقی حاصل کی۔
بھارت کی آزادی کے بعد 27 مارچ 1951 میں اسپلینیڈ سے خضرپور کے درمیان پہلی مرتبہ الیکٹرکس ٹرام گاڑی چلائی گئی۔ اس کے بعد دیگر ٹرام ڈیپو کو بجلی سے جوڑا گیا۔
سنہ 1951 میں مغربی بنگال کی حکومت اور کلکتہ ٹرامس وے کمپنی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے بعد مغربی بنگال حکومت نے ٹرام کی دیکھ بھال شروع کردی۔
معاہدے کے چند برسوں کے بعد کلکتہ ٹرام کی آمدنی میں تیزی سے گراوٹ آنے لگی۔ کولکاتا کی سڑکوں پر نجی گاڑیوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ ٹرام کے روٹ محدود ہونے لگے یکے بعد دیگرے ڈیپو بند کئے جانے لگے جو آج تک جاری ہے۔
لیفٹ فرنٹ کی حکومت نے اہم روٹوں کو بند کرکے ٹرام کے لیے نئے روٹ قائم کیا۔ سنہ 1986 تک ٹرام کے روٹ بہالہ سے جوکا تک پھیل گئے لیکن اس میں زیادہ بہتری نہیں آسکی۔
یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو: تاریخی وکٹوریہ گیٹ کی اہمیت، تاریخ اور اس کی تعمیر پر ایک نظر
سنہ 2011 میں لیفٹ فرنٹ کے دور حکومت کا خاتمہ ہوا اور ممتابنرجی کی قیادت والی حکومت آگئی، مغربی بنگال میں یہ تبدیلی کا دور تھا۔ ممتابنرجی کی حکومت نے ٹرام کے بجائے میٹرو ریلوے کو ترجیح دی۔
ممتابنرجی کے دور حکومت میں 2013 چوروبیتی اور روپاشی نام کی دو اے سی والی ٹرام گاڑی متعارف کرائی گئی۔ 30 ستمبر 2014 ٹرام کو میوزیم میں بدل دیا گیا لیکن 2015 میں ماں فلائی اوور کی تعمیر کے سبب پارک سرکس ڈیپو بند کردیا گیا۔
مغربی بنگال کے لوگوں کو ٹرام سے بے حد محبت ہے اور وہ ٹرام کی تاریخ کو زندہ اور برقرار رکھنے کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے تاریخی اثاثہ قرار دیتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے شمشیر علی نے تاریخی ٹرام کے سفر کے دوران کئی مسافروں سے خصوصی بات چیت کی اور اس ضمن میں ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔
مسافروں نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرام تاریخی اثاثہ ہے اور اسے نہ صرف برقرار رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے اور بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'جہاں آج پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے سبب ٹرانسپورٹ کے کرائے میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے عام لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لیکن ٹرام کے کرائے آج بھی دس روپے سے کم ہیں۔ اس لیے ٹرام کو اور بہتر سے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔