ETV Bharat / state

West Bengal Urdu Academy Awards for Journalists: بنگال اردو اکاڈمی پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام - مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے رکن

مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے بھی اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر تین روزہ جشن منانے کا اعلان کیا اور 24 مئی سے جشن جام جہاں نما جاری ہے۔ تین روزہ عالمی سمینار، عالمی مشاعرہ اور صحافیوں کو انعامات دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ West Bengal Urdu Academy Awards for Journalists

بنگال اردو اکاڈمی پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام
بنگال اردو اکاڈمی پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام
author img

By

Published : May 26, 2022, 4:18 PM IST

اردو صحافت کے دو صد سالہ مکمل ہونے پر مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے تین روزہ جشن جام جہاں نما منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اکاڈمی 15 صحافیوں کو ان کے خدمات کے لیے ایوارڈ بھی دے رہی ہے۔ بنگال میں صحافت سے جڑے افراد کے مطابق ان 15 صحافیوں میں اردو صحافت سے جڑے بنگال کے صحافیوں کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب انگریزی کے ایک جانب دار میڈیا ہاؤس کے صحافی کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ایسے بھی صحافیوں کو ایوارڈ دیا جا رہا ہے جو خود اکاڈمی کے رکن ہیں اور ایک صحافی جن کو چند ماہ قبل ہی اکاڈمی نے ایوارڈ دیا تھا ان کو ایک بار پھر سے ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔جس پر بنگال اردو صحافیوں کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔West Bengal Urdu Academy Awards for Journalists

بنگال اردو اکاڈمی پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام

مغربی بنگال کے دارلحکومت کولکاتا سے 1822 میں اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما شائع ہوا تھا۔اردو کے پہلے اخبار اور اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر ملک کے مختلف حصوں میں دو صد سالہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے بھی اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر تین روزہ جشن منانے کا اعلان کیا اور 24 مئی سے جشن جام جہاں نما جاری ہے۔تین روزہ عالمی سمینار ،عالمی مشاعرہ اور صحافیوں کو انعامات دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ملک بھر سے 15 صحافیوں کو منتخب کیا گیا ہے۔لیکن جن صحافیوں کو ایوارڈ منتخب کیا گیا ہے انھیں کس بنیاد پر منتخب کیا گیا ہے اس پر کچھ لوگوں کی جانب سے حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔کیوں ان صحافیوں میں ریاست مغربی بنگال کے موجودہ صحافیوں جو گزشتہ 15 یا 20 برسوں سے اردو صحافت کی خدمت کر رہے ہیں۔

دو بزرگ صحافیوں کو چھوڑ دیں تو اس میں کوئی اردو صحافی نہیں ہے جس کا تعلق بنگال سے ہے۔اس کے علاوہ اردو صحافت کے دو سو سالہ مکمل ہونے پر اردو اکاڈمی چار غیر اردو صحافیوں کو بھی ایوارڈ دے رہی ہے۔مغربی بنگال میں گذشتہ 20 برسوں کئی صحافی خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی اس فہرست شامل نہیں کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ان لوگوں کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے جو خود مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے رکن ہیں اور ان کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے جو اس تقریب کے ریسپشن کمیٹی میں شامل ہیں۔سب سے حیرانی کی بات یہ رہی کہ ان پندرہ صحافیوں میں جانبدارانہ صحافت اور ایک طبقے کے خلاف زہر اگلنے والے ایک انگریزی میڈیا ہاؤس کے صحافی تمل ساہا کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ تمل ساہا کی صحافتی زندگی محض دس سال پر محیط ہے جبکہ باقی ایوارڈ کے لئے نامزد صحافی سبکدوش ہو چکے ہیں یا عملی صحافت سے برسوں پہلے ان کا ناطہ ٹوٹ چکا ہے ۔ایسے بزرگ صحافیوں کی فہرست میں ایک نوجوان صحافی کا نام کس بنا پر شامل کیا گیا یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔پنجابی زبان میں کولکاتا سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے ایڈیٹر بچن سنگھ سرل جو اکاڈمی کے رکن ہیں ان کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔آج سے چند ماہ قبل ہی اخبار مشرق کے ایڈیٹر وسیم الحق کو اکاڈمی نے ایوارڈ سے اکاڈمی نے نوازا تھا ان کو دوبارہ سے ایوارڈ دیا جا رہا ہے وسیم الحق اکاڈمی کے نائب چئیرپرسن اور راجیہ سبھا ایم پی ندیم الحق کے والد ہیں۔اس کے علاوہ اکاڈمی کے اس جشن کی تیاری کے لئے ایک ریسپشن کمیٹی بنائی گئی تھی اس کمیٹی میں رکن کے طور پر شامل پرویز حفیظ کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔جبکہ کولکاتا کے مقامی اخبار میں گذشتہ 20 برسوں سے یا اس سے بھی زائد عرصے سے متعدد صحافی خدمات انجام دے رہے بلکہ اردو صحافت کے لئے اپنی زندگی کو مصیبت بنا چکے ہیں۔ایسے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اردو کے سب سے بڑے اور مالدار ادارے جس کا بجٹ کروڑوں میں ہے حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے اس رویے سے بنگال کی موجودہ صحافت سے جڑے افراد ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی لوگ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

اردو صحافت کے دو صد سالہ مکمل ہونے پر مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی جانب سے تین روزہ جشن جام جہاں نما منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر اکاڈمی 15 صحافیوں کو ان کے خدمات کے لیے ایوارڈ بھی دے رہی ہے۔ بنگال میں صحافت سے جڑے افراد کے مطابق ان 15 صحافیوں میں اردو صحافت سے جڑے بنگال کے صحافیوں کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب انگریزی کے ایک جانب دار میڈیا ہاؤس کے صحافی کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔ایسے بھی صحافیوں کو ایوارڈ دیا جا رہا ہے جو خود اکاڈمی کے رکن ہیں اور ایک صحافی جن کو چند ماہ قبل ہی اکاڈمی نے ایوارڈ دیا تھا ان کو ایک بار پھر سے ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔جس پر بنگال اردو صحافیوں کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔West Bengal Urdu Academy Awards for Journalists

بنگال اردو اکاڈمی پر اردو صحافیوں کو نظر انداز کرنے کا الزام

مغربی بنگال کے دارلحکومت کولکاتا سے 1822 میں اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما شائع ہوا تھا۔اردو کے پہلے اخبار اور اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر ملک کے مختلف حصوں میں دو صد سالہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔مغربی بنگال اردو اکاڈمی نے بھی اردو صحافت کے دو سو سال مکمل ہونے پر تین روزہ جشن منانے کا اعلان کیا اور 24 مئی سے جشن جام جہاں نما جاری ہے۔تین روزہ عالمی سمینار ،عالمی مشاعرہ اور صحافیوں کو انعامات دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔ملک بھر سے 15 صحافیوں کو منتخب کیا گیا ہے۔لیکن جن صحافیوں کو ایوارڈ منتخب کیا گیا ہے انھیں کس بنیاد پر منتخب کیا گیا ہے اس پر کچھ لوگوں کی جانب سے حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔کیوں ان صحافیوں میں ریاست مغربی بنگال کے موجودہ صحافیوں جو گزشتہ 15 یا 20 برسوں سے اردو صحافت کی خدمت کر رہے ہیں۔

دو بزرگ صحافیوں کو چھوڑ دیں تو اس میں کوئی اردو صحافی نہیں ہے جس کا تعلق بنگال سے ہے۔اس کے علاوہ اردو صحافت کے دو سو سالہ مکمل ہونے پر اردو اکاڈمی چار غیر اردو صحافیوں کو بھی ایوارڈ دے رہی ہے۔مغربی بنگال میں گذشتہ 20 برسوں کئی صحافی خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی اس فہرست شامل نہیں کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ان لوگوں کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے جو خود مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے رکن ہیں اور ان کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے جو اس تقریب کے ریسپشن کمیٹی میں شامل ہیں۔سب سے حیرانی کی بات یہ رہی کہ ان پندرہ صحافیوں میں جانبدارانہ صحافت اور ایک طبقے کے خلاف زہر اگلنے والے ایک انگریزی میڈیا ہاؤس کے صحافی تمل ساہا کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ تمل ساہا کی صحافتی زندگی محض دس سال پر محیط ہے جبکہ باقی ایوارڈ کے لئے نامزد صحافی سبکدوش ہو چکے ہیں یا عملی صحافت سے برسوں پہلے ان کا ناطہ ٹوٹ چکا ہے ۔ایسے بزرگ صحافیوں کی فہرست میں ایک نوجوان صحافی کا نام کس بنا پر شامل کیا گیا یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔پنجابی زبان میں کولکاتا سے شائع ہونے والے ایک اخبار کے ایڈیٹر بچن سنگھ سرل جو اکاڈمی کے رکن ہیں ان کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔آج سے چند ماہ قبل ہی اخبار مشرق کے ایڈیٹر وسیم الحق کو اکاڈمی نے ایوارڈ سے اکاڈمی نے نوازا تھا ان کو دوبارہ سے ایوارڈ دیا جا رہا ہے وسیم الحق اکاڈمی کے نائب چئیرپرسن اور راجیہ سبھا ایم پی ندیم الحق کے والد ہیں۔اس کے علاوہ اکاڈمی کے اس جشن کی تیاری کے لئے ایک ریسپشن کمیٹی بنائی گئی تھی اس کمیٹی میں رکن کے طور پر شامل پرویز حفیظ کو بھی ایوارڈ دیا جا رہا ہے۔جبکہ کولکاتا کے مقامی اخبار میں گذشتہ 20 برسوں سے یا اس سے بھی زائد عرصے سے متعدد صحافی خدمات انجام دے رہے بلکہ اردو صحافت کے لئے اپنی زندگی کو مصیبت بنا چکے ہیں۔ایسے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اردو کے سب سے بڑے اور مالدار ادارے جس کا بجٹ کروڑوں میں ہے حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے اس رویے سے بنگال کی موجودہ صحافت سے جڑے افراد ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر بھی لوگ ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.